رسائی کے لنکس

اسرائیل صحافیوں کو قید میں ڈالنے والے ممالک میں ایران کے ساتھ چھٹے نمبر پر: رپورٹ


صحافیوں کے حقوق اور آزادیِٔ صحافت کے لیے کام کرنے والی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سال 2023 میں اسرائیل صحافیوں کے لیے بدترین جیلرز میں سے ایک رہا۔

جمعرات کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی صحافیوں کی گرفتاری میں اضافہ ہوا۔

نیو یارک میں مقیم تنظیم نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ اسرائیل صحافیوں کے لیے دنیا کا چھٹا بدترین جیلر ہے جہاں 17 صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان تمام کو سات اکتوبر کے حملے کے بعد جیل میں ڈالا گیا۔

اس سالانہ رپورٹ میں یکم دسمبر تک جیل میں موجود صحافیوں کا ذکر کیا گیا ہے جس کے مطابق مجموعی طور پر 320 صحافی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

پکڑے جانے والوں میں وی او اے اور اس کے نیٹ ورکس ریڈیو فری ایشیا اور ریڈیو فری یورپ/ ریڈیو لبرٹی کے لیے معاونت (کنٹریبوٹرز) کرنے والے بھی شامل ہیں۔

چین 2023 کی اس فہرست میں پہلے نمبر پر رہا جس کے بعد میانمار، بیلاروس، روس اور ویتنام کا نمبر آتا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان چھٹے نمبر پر ٹائی ہوا کیوں کہ دونوں ممالک میں 17، 17 صحافی جیل میں ہیں۔

سی پی جے کی سی ای او جوڈی گنزبرگ کہتی ہیں کہ پیغام واضح ہے۔ صحافی طاقت ور کا محاسبہ کرتے ہیں اور جو لوگ اقتدار میں ہیں اکثر وہ اسے ناقابلِ یقین حد تک خطرناک سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کس طرح آمرانہ حکومتیں "صحافیوں کو حراست میں رکھنے اور خاموش کرانے کے لیے" قوانین کا غلط استعمال کرتی ہیں۔ یہ بالکل ویسا ہی ہے جس کا ارادہ کرتے ہیں۔ اس کا مقصد تنقیدی آوازوں کو خاموش کرنا ہے۔

کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس نے یکم دسمبر 2023 کے اعداد و شمار کے بعد سے فلسطینی صحافیوں کی مزید گرفتاریوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔

اس ڈیٹا کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے 25 صحافیوں کو حراست میں لیا گیا اور بدھ تک 19 صحافی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے۔

گنزبرگ کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں گرفتاریاں اس وسیع کریک ڈاؤن کی عکاسی کرتی ہیں جو ہم صحافیوں کے خلاف دیکھ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ یہ تنازع صحافیوں کے لیے پہلے ہی ریکارڈ مہلک ثابت ہوا ہے جس میں کم از کم 83 صحافی ہلاک ہوئے ہیں۔ ان میں سے 76 فلسطینی، چار اسرائیلی اور تین لبنانی شامل ہیں۔

اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے اس معاملے پر تبصرے کے لیے بھیجی گئی وی او اے کی ای میل کا جواب نہیں دیا۔ تاہم وزارتِ خارجہ صحافیوں کو نشانہ بنانے کی تردید کرتی آئی ہے۔

فلسطینی سیاسی تجزیہ کار اور الجزیرہ کی سابق رپورٹر نور عودہ کہتی ہیں کہ مغربی کنارے میں میڈیا سے متعلق حراستیں عام ہیں۔ ان کے بقول انہوں نے گرفتاریوں کی حالیہ لہر جیسی کوئی چیز پہلے کبھی نہیں دیکھی۔

رملہ سے وی او اے سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ پیمانہ واقعی حیران کن ہے۔ ان کے خیال میں کریک ڈاؤن کے پیچھے مقصد یہ دکھانا ہے کہ باس کون ہے۔

سی پی جے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیرِ حراست افراد میں زیادہ تر انتظامی حراست میں ہیں۔ سی پی جے کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ اسرائیلی حکام کسی بھی صحافی کو بغیر کسی الزام کے گرفتار کرسکتے ہیں، انہیں اس بنیاد پر گرفتار کیا جاسکتا ہے کہ صحافی مستقبل میں جرم کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔

نور عودہ کا کہنا تھا کہ "آپ کو گرفتار ہونے کے لیے واقعی کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہاں کوئی تحفظ نہیں ہے۔ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو آپ کو بچائے۔"

گنزبرگ کا کہنا تھا اس سال جیل جانے کے اعداد و شمار میں ایک رجحان صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے نان جرنلزم چارجز یعنی غیر صحافتی الزامات کا استعمال ہے۔ یہ الزامات منی لانڈرنگ سے لے کر ٹیکس چوری اور دہشت گردی تک ہیں۔

ان کے بقول اس طرح اقتدار میں رہنے والے، صحافیوں کو مجرم، دشمن کے طور پر پیش کرسکتے ہیں۔

چین کی حکومت ان ممالک میں شامل ہے جو صحافیوں کو نشانہ بنانے کے لیے قومی سلامتی کے الزامات کا باقاعدگی سے استعمال کرتی ہے۔

چین طویل عرصے سے صحافیوں کے لیے دنیا کا بدترین جیلر شمار ہوتا ہے اور وہاں 2023 میں 44 صحافیوں کو قید رکھا گیا۔

فورم

XS
SM
MD
LG