رسائی کے لنکس

شام میں جاری مظاہروں پر ایک نظر


اکتوبر 2011ء میں روس اور چین نے شام کے خلاف مذمتی قرارد اد کو روکنے کے لیے اپنے ویٹو کے حق کا استعمال کیا

شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز مارچ 2011ء میں ہوا جن میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ۔ حکومت نے اعلان کیا کہ پہلے سیاسی اصلاحات نافذ کی جائیں گے اور پھروہ اقتدارسے الگ ہو گی۔

بعد ازاں اپریل اور مئی کے مہینوں میں مظاہروں میں شدت آئی اور حکومت نے انہیں طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوگئے۔ اقوام متحدہ نے شام کی حکومت کو اپنے عوام کے خلاف طاقت کے بےدریغ استعمال سے باز رکھنے کے لیے اس کی اعلی ٰ قیادت پر متعدد پابندیاں عائد کردیں۔

گذشتہ سال اگست اور ستمبر کے مہینوں میں سعود ی عرب، کویت اور بحرین نے مظاہرین کے خلاف طاقت کے بڑھتے ہوئے استعمال پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سفیر واپس بلا لیے ۔ امریکہ نے شام پر کئی معاشی پابندیاں لگا دیں اور یورپی یونین نے شام سے تیل کی درآمد بند کردی۔

اکتوبر 2011ء میں روس اور چین نے شام کے خلاف مذمتی قرارد اد کو روکنے کے لیے اپنے ویٹو کے حق کا استعمال کیا۔

نومبر 2011ء میں عرب لیگ نے اپنی تنظیم میں شام کی رکنیت معطل کردی۔

جنوری 2012ء میں شام کی حکومت نے پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کردیا۔ جب کہ جمہوری اصلاحات کے حق میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ عوامی تحریک کچلنے کے دوران رونما ہونے والے پرتشدد واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد سات ہزار سے بڑھ گئی۔

فروری 2012ء میں شام میں حکومتی پکڑ دھکڑ کے خلاف سلامتی کونسل کی قرار داد کو روس اور چین نے دوسری مرتبہ ویٹو کردیا۔

مارچ 2012ء میں اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے شام کے ساتھ مذاکرات کیے ۔ اقوام متحدہ نے اس دوران اعلان کیا کہ تشدد کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد نوہزار سے بڑھ چکی ہے۔ شام نے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ امن منصوبہ قبول کرلیا۔

اپریل 2012ء میں شام کی حکومت نے کہا کہ وہ فائربندی کے معاہدے پر عمل کرے گا، لیکن ملک میں تشدد بدستور جاری رہا۔ اپریل میں ہی اقوام متحدہ کے امن کار شام میں پہنچ گئے۔

مئی 2012ء میں شام میں پارلیمانی انتخابات ہوئے ، لیکن تشدد بھی جاری رہا۔ اقوام متحدہ اور عرب لیگ کے مشترکہ نمائندے کوفی عنان نے شام کے صدر بشارالاسد سے تشدد روکنے کی اپیل کی۔

جون 2012ء میں مغربی ممالک نے شام کے سفارت کاروں کو اپنے ملکوں سے نکال دیا۔ مسٹر عنان نے شام پر دباؤ بڑھانے کی اپیل کی۔

29جون کو شام میں بڑھتے ہوئے تشدد کو روکنے کی کوششوں کے سلسلے میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کی اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف سےملاقات ناکام رہی۔

30 جون کو عالمی اور خطے کی اہم طاقتیں جنیوا میں مسٹر کوفی عنان کی جانب سے بلائے گئے اجلاس میں شریک ہوئیں۔ اس کانفرنس کا مقصد شام میں جاری لڑائیوں کو بند کرانے کے لیے نئی تجاویز پر کوئی معاہدہ کرنا ہے۔
XS
SM
MD
LG