رسائی کے لنکس

گیتا ۔بھارت سے اپنے والدین کی منتظر


گیتا
گیتا

میڈیا گیتا کی ڈوبتی آس کو زندہ رکھنے کا مضبوط سہارا ہے۔ انہیں امید ہے کہ بہت جلد بھارتی میڈیا بھی گیتا کے بارے میں معلومات اپنے عوام تک ضرور پہنچائے گا ۔ بس اسی طرح گیتا اپنے والدین سے مل سکتی ہے۔

ایدھی ہوم ، پاکستان کا ایسا ادارہ جو ان گنت لوگوں کی بے حساب حقیقتوں کا ہم راز ہے ۔انہی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت’ گیتا‘ بھی ہے۔وہ گوشت پوست کی جیتی جاگتی جواں سال لڑکی ہے جو اپنی پہچان نہیں رکھتی، اپنا نام نہیں جانتی، اس کا والد کون ہے، کس نے اسے جنم دیا ، وہ پاکستان کی شہری نہیں ، پھر یہاں کیسے اور کیوں کر آئی ، وہ نہیں جانتی۔اس کی عمر 21سال ہے مگر وہ اپنی ذات کے سفر میں تنہا ہے۔ بولنے سے معذور، سننے سے قاصر ۔۔مجبور۔۔اور بے کس!!

یہ اس کی تنہا ذات کا ایسا سفر ہے جس میں اسےبرسوں سے اپنوں کی تلاش ہے۔ وہ صرف چند الفاظ لکھنا جانتی ہے ،” انڈیا“اور ہندی کے چند دیگر حروف جن کا مفہوم شاید وہ خود جانتی ہے مگر بتانہیں سکتی۔ مافی الضمیر بیان کرنے کے لئے وہ اشاروں کا سہارہ لیتی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے اور اس کی جنم بھومی بھارت ہے۔ محض اس بناء پر ایدھی ہوم سے اسے گیتا نام دے دیا گیا، جو ظاہر ہے اس کی اصل پہچان نہیں۔

گیتا کو آٹھ سال کی عمر میں ایک پولیس اہلکار لاہور کے ریلوے اسٹیشن سے اٹھاکر ایدھی ہوم میں چھوڑ گیا تھا۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ گیتا اسے ریلوے اسٹیشن پر لاوارث ملی تھی۔شروع شروع میں وہ ایدھی ہوم سے بھاگ کر اپنے والدین کے پاس جانا چاہتی تھی مگر والدین کہاں ملیں گے یہ اسے بھی نہیں پتہ تھا۔بھر بھی اس نے فرار کی کئی مرتبہ کوشش کی ۔ ایدھی ہوم والوں نے فرار روکنے کی غرض سے اسے لاہور سے کراچی منتقل کردیا۔

اس واقعے کو 13 سال گزر چکے ہیں۔ ان 13 برسوں میں رفتہ رفتہ وہ ایدھی ہوم سے مانوس ہوگئی اور دیگر سینکڑوں بچوں کی طرح اس نے بھی بلقیس ایدھی کو ہی اپنی ماں سمجھنا شروع کردیا۔

وی او اے کی اس نمائندہ نے گیتا کے حوالے سے ایدھی ہوم کی سربراہ بلقیس ایدھی سے کراچی میں ملاقات کی ۔ گیتا کے بارے میں ان کا مزید کہنا ہے کہ غالباًگیتا اپنے والدین سے کسی طرح بچھڑگئی ہوگی۔ ایدھی فاونڈیشن لاوارث بچوں کو پناہ دیتا ہے اور ان کے رہنے و کھانے پینے کا بندوبست کرتا ہے لہذا گیتا بھی اب ایدھی ہوم کی ذمے داری ہے ۔

بلقیس ایدھی کے مطابق گیتا اشاروں کی زبان میں کہتی ہے کہ اس کے چار بھائی ااور تین بہنیں ہیں۔ چونکہ وہ ہندی زبان میں لکھتی ہے لہذا اندازہ ہے کہ وہ بھارت سے غلطی سے پاکستان آگئی ہوگی ۔ اگر وہ بولنے کے قابل ہوتی تو ہمیں اس کے والدین اور دیگر تفصیلات کا پتہ چلتا۔ اب صرف ایک امید ہے ۔ وہ بھی میڈیا سے کہ شاید کسی طرح اس کے والدین گیتا کو پہچان لیں اور ایدھی ہوم سے رابطہ کرلیں۔

بلقیس ایدھی کا مزید کہنا ہے کہ گیتا اکثر اشاروں سے ہم سے مندر جانے کی ضد کرتی تھی ۔ ہم اسے مندر بھی لیجاتے تھے مگراب اس کے لئے ایدھی فاونڈیشن میں ہی چھوٹی سی جگہ مندر کیلئے مخصوص کردی ہے جہاں وہ روز پوجا کرتی ہے۔ گیتا سے ملنے کئی ہندو وفد بھی آچکے ہیں مگر اس لڑکی کو کوئی جانتا پہچانتا نہیں۔ اس لئے کوئی اس کو ساتھ لیکر نہیں گیا۔ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ بھارت سے اس کے خاندان والوں کا کچھ پتہ چل جائے مگر فی الحال کوئی کامیابی نہیں ہورہی۔

گیتا اپنے ماں باپ سے ملنے اور اپنے گھر جانے کیلئے بے تاب ہے۔وہ اپنے ماں باپ کو یاد کرتی ہے اور امید لگائے بیٹھی ہے کہ ایک دن اس کے والدین اسے لینے ضرور آئیں گے ۔وہ اپنے جذبات کا اظہار نہیں کرسکتی مگر اسکا انتظار اس کی آنکھوں اور حرکات سے ظاہر ہوتا ہے۔

ایدھی فانڈیشن کے ایک عہدیدار انور کاظمی نے وی او اے سے بات کرتے ہوءے کہا کہ ہمارا ادارہ گیتا کے خاندان والوں کو ڈھونڈرہا ہے۔ امید ہے کہ ایسے ماحول میں جب دونوں جانب کے لوگوں کو ’امن کی امید‘ ہے ، گیتا کو بھی گہری آس ہے کہ جلد از جلد اس کی ذات کا یہ ادھورا سفر پورا ہوگا۔

آج میڈیا بہت حد تک گیتا کے نام سے واقف ہے ، میڈیا گیتا کی ڈوبتی ہوئی آس کو زندہ رکھنے کا مضبوط سہارا ہے۔ انہیں امید ہے کہ بہت جلد بھارتی میڈیا بھی گیتا کے بارے میں معلومات اپنے عوام تک ضرور پہنچائے گا ۔ بس اسی طرح گیتا کے والدین اسے مل سکتے ہیں۔۔۔یہی امید ہے ، یہی آسرا ہے۔۔گیتا کی بے قراری کا ۔
XS
SM
MD
LG