رسائی کے لنکس

ہمارا دشمن کون ہے؟


دنیا کے کسی کونے میں، کوئی شر پسند اوربدنیت شخص کہیں چنگاری سلگاتا ہے تو پاکستانی اپنا ہی گھر جلانے، اپنی ہی املاک ملیا میٹ کرنے اور اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانےآنافاناً باہر نکل آتے ہیں۔

یوم عشق رسول کے موقع پر پاکستانیوں نے دنیا بھر کو دکھا دیا کہ انہیں اپنے رسول اوران کی تعلیمات سے کتنا عشق ہے۔ جمعے کے روز دنیا بھر کے ٹیلی ویژن چینل پاکستان کے احتجاج کی فوٹیج دکھاتے رہےجن سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اس ملک میں کوئی قوم نہیں بستی بلکہ زمانہ قبل ازمسیح کے وحشی انسانوں کے جتھے گلی کوچوں ، شاہروں اور آبادیوں میں دندانتے پھر رہے ہیں ۔ جن کا واحد مقصد لوٹ مار کرنا ہے اور جوچیز ہاتھ نہ آئے یا کام کی نہ لگے، اسے توڑ پھوڑ کر آگ لگانا ہے۔اس روز شام تک 30 لوگ مارے جاچکے تھے، کئی بینک لوٹ لیے گئے تھے،کئی اے ٹی ایم مشینیں خالی کردی گئی تھیں۔بیسیوں دکانوں کےشٹر توڑ کر ہاتھ صاف کرلیے گئے تھے۔کتنی گاڑیاں جلیں، کتنے ٹریفک سگنلز ٹوٹے ،کتنے دفتروں اور مراکز کو نقصان پہنچا، ان کا شمار ہی نہیں ہے۔ معلوم نہیں کہ رات ڈھلے جب عشق کے یہ متوالے اپنے گھروں کو لوٹے ہوں گےتو کتنے مطمئن ہوں گے ، لیکن بیرونی ملکوں میں آبادپاکستانیوں کے سر شرم سے جھک چکے تھے، جن کی تعداد پچاس لاکھ سے زیادہ ہے۔

اسی روز بھارت میں بھی، جہاں مسلمان14 کروڑ سے زیادہ ہیں اور آبادی کے لحاظ سے وہ دنیا کا تیسرا بڑا اسلامی ملک ہے، اسلام دشمن ویڈیو ٹریلر کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ مگر ایک گملا نہیں ٹوٹا، کہیں ٹریفک نہیں رکا، کوئی زخمی نہیں ہوا، مگردنیا بھر میں ان کا احتجاج موثر طور پر ریکارڈ ہوا۔ بہت سے دوسرے اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں میں بھی مظاہرے ہوئے ، لیکن کہیں بھی پاکستان جیسا وحشی پن دیکھنے میں نہیں آیا۔


دنیا میں مسلمانوں کی آباد ڈیڑھ ارب کے لگ بھگ اور اسلامی ملکوں کی تعداد 50 سے زیادہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر آبادی کے تناسب کو پیش نظر رکھا جائے تو پریکٹیکل مسلمانوں کی سب سے کم تعداد پاکستان میں ہے۔ یعنی دوسرے مسلم ممالک کے مقابلے میں مسجد جانے والے پاکستانیوں کی تعداد کم ہے۔ ماہ صیام کے روزے دار بھی کم ہیں۔ زکواۃ بھی کم دی جاتی ہے اور ایک بڑی اکثریت نے زکواۃ کی کٹوتی سے بچنے کے لیےبینکوں میں جھوٹے سرٹیفکیٹ داخل کروائے ہوئے ہیں۔ لیکن اسلام کے نام پر مرنے اور مارنے والوں میں یہ ملک سب سے آگے ہے۔ دنیا کے کسی کونے میں، کوئی شر پسند اوربدنیت شخص کوئی چنگاری سلگاتا ہے تویہ اپنا ہی گھر جلانے، اپنی ہی املاک ملیا میٹ کرنے اور اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانےآنافاناً باہر نکل آتے ہیں۔

جمعے کے روز صرف ایک دن میں پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ اربوں روپے ہے۔ایک ایسی معیشت کو ، جس کا سانس کسی بھی لمحے رکنے کا دھڑکا لگا ہوا ہے، مزید نقصان پہنچانے سے ویڈیو میکر کا کیا بگڑا ہے، بلکہ وہ تو اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب رہاہے۔ اس وحشی پن کی بھینٹ چڑھنے والے 30 افراد کا جرم کیا تھا؟ اور ان کا اس فلم سے کیا تعلق تھا۔ ان کے جانے سے کتنے چولہے بجھ گئے، کوئی نہیں سوچے گا۔ جن کے روزگار برباد ہوئے ، جو اپنی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں سے محروم ہوئے، جن کی دکانیں لٹ گئیں اور املاک جلا دی گئیں ، ان کا بھی ویڈیو میکر سے کوئی تعلق نہیں تھا، یہ نقصان کیسے پورا ہوگا، کوئی نہیں سوچے گا اور یہ بھی کوئی نہیں سوچے گا کہ ان کے اس عمل سے دنیا بھر میں پاکستان کے تشخص کتنا دھچکا لگا ہے اور دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔


ایک زمانہ تھا کہ اسلامی تہذیب دنیا بھر میں سب سے مہذب ، شائشتہ اور پڑھی لکھی تہذیب سمجھی جاتی تھی۔ دنیا کے بڑے بڑے کتب خانے اور درس گاہیں اسلامی ممالک میں تھیں ۔ سائنس ، ریاضی اور دیگر جدید علوم میں سب سے زیادہ تحقیق و مطالعہ اسلامی دنیا میں ہوتاتھا۔ سب سے زیادہ کتابیں یہاں لکھی اور چھاپی جاتیں تھیں اور پوری دنیا ان سے فیض حاصل کرتی تھی۔ اس دور کے مسلمان اعتدال پسند اور روشن خیال تھے۔ ان میں کوئی اونچ نیچ نہیں تھی۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں تھا۔ کسی سے تعصب نہیں برتا جاتا تھا۔ انصاف کے پلڑے میں سب برابر تھے۔ غیر مسلموں کا احترا م کیا جاتاتھا اور انہیں مساوی حقوق حاصل تھے۔ یہ مسلمانوں کی شناخت تھی اور اسی نے اسلام کو عرب کے ریگزار سے دنیا کے کونے کونے تک پھیلنے میں مدد دی۔

اسلام سے پہلے کا عرب معاشرہ ، ایک وحشی، اجڈ اور ظالم معاشرہ تھا، جنہیں انسانیت سکھانے اللہ انے وہاں اپنانبی بھیجا تھا۔لیکن جب مسلمانوں نے اعتدال اور روشن خیالی ترک کردی، خود کوصحیح اور دوسروں کو غلط سمجھنے لگے، جب انہوں نے دلیل کی بجائے طاقت سے اپنی بات منوانے کی روش اپنا لی اور جب جاہل خود کو عالم کہلوانے لگے اور عالم معتوب ٹہرائے جانے لگے تو واپسی کا سفر شروع ہوگیا۔ آج کا پاکستان فکری اعتبار سے قبل ازاسلام کے عرب معاشرے کی تصویر پیش کررہاہے۔ کوئی ایسی خرابی اور بگاڑ نہیں ہے جو ہم میں موجود نہ ہو۔ ہم نے علم کے دروزے بند کردیے ہیں۔ سائنس کو کفر قرار دےدیا ہے۔ حتی کہ پولیوسے بچاؤ کے قطروں تک کے خلاف فتوے جاری کردیے ہیں۔ دنیا میں اب یہ مرض صرف ایتھوپیا ، افغانستان اورپاکستان میں باقی رہ گیاہے ۔ گویا ہم ایتھوپیا کی سطح پراتر چکے ہیں۔ قتل کادرس دینے والے اب ہمارے رہبر ہیں۔ اب ہماری پہچان اسلام نہیں رہی بلکہ قبل از اسلام دور جیسے فرقے اور گروہ بن چکے ہیں اورہم اپنے سوا کسی دوسرے کو جینے کا حق نہیں دینا چاہتے۔ہم انہیں قطار میں کھڑا کرکے گولیاں ماررہے ہیں۔ نفرت کی آگ نے ہمیں اتنا سنگ دل بنا دیا ہے ہم کہ اپنے بچوں کے پٹاخے بنا کر انہیں بھرے بازاروں میں پھاڑ رہے ہیں۔


یوم عشق رسول پر ہم نے وہ سب کچھ کیا جس سے ہمارے نبی نے روکا تھا۔ ایسا کرتے ہوئے ہم نے ان کی سنت پر بھی نظر نہیں ڈالی۔ دشمنوں نے ان پر ہر ظلم کیا، ہر دکھ دیا، لیکن انہوں نے سب کو معاف کیااور ان کے حق میں دعا کی۔ یہی اسلام کی اصل روح ہے۔ ہم ساری دنیا کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں ہمارا دشمن صرف ایک ہے، نفرت سکھانے والا شخص۔
  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG