رسائی کے لنکس

لاکھوں افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے بل قومی اسمبلی میں پیش


قومی اسمبلی
قومی اسمبلی

وزیر مملکت برائے خزانہ نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے ٹیکس کے نظام میں موجود ہی نہیں اور انہیں اس نظام میں لانا تقریباً نہ ممکن ہے اور اسی لیے یہ اسکیم متعارف کی جا رہی ہے۔

نئے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد صرف آٹھ لاکھ ہے جبکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے تقریباً 30 لاکھ ایسے پاکستانیوں کی نشاندہی کی ہے جو کہ شاہانہ طرز زندگی گزار رہے ہیں مگر اپنی سالانہ آمدن پر کسی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کرتے۔

ان افراد کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے حکومت نے حال ہی میں قومی اسمبلی میں ایک اسکیم متعارف کرانے کے لیے بل پیش کیا جس کے تحت وہ اپنی آمدن اور اثاثوں کو رضا کارانہ طور پر ظاہر کرکے صرف اس کا ایک سے دو فیصد حکومت کو ادا کریں گے۔ یہ اسکیم صرف ایک مرتبہ کے لیے ہو گی اور اس کے ذریعے حکومت کے بقول 150 ارب روپے کا ریونیو حاصل ہوگا۔

وزیر مملکت برائے خزانہ سلیم مانڈوی والا نے ہفتے کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں سب بڑا مسئلہ ٹیکس ادا کرنے والے افراد کی تعداد میں بتدریج کمی ہے جبکہ دوسری جانب 30 لاکھ افراد وہ ہیں جن کا سالانہ خرچ 20 سے 50 لاکھ روپے ہے اور وہ ایف بی آر کے پاس رجسٹرڈ ہی نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اسکیم کو کالے دھن کو سفید کرنے کی اسکیم کہنا درست نہیں۔

’’یہ وہ لوگ ہیں جو ہمارے ٹیکس کے نظام میں موجود ہی نہیں اور انہیں اس نظام میں لانا تقریباً نہ ممکن ہے اور اسی لیے یہ اسکیم متعارف کی جا رہی ہے۔‘‘

انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اس ترمیمی بل کے تحت ایف بی آر کو کوئی خصوصی اختیارات دیے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی پانچ مرتبہ ایسی اسکیمیں متعارف کروائی جا چکی ہیں۔

سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ اگر ان افراد میں سے آدھے بھی اس اسکیم کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں آجائیں تو ملک کے ریونیو پر کافی فرق پڑے گا۔

تاہم حکومت کی اس سکیم کو نہ صرف حزب اختلاف بلکہ اپنی اتحادی جماعتوں کی جانب سے بھی مخالفت کا سامنا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کی رہنما اور سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی سربراہ نسرین جیلانی کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹیکس ادا کرنے والوں کے ساتھ یہ ذیادتی ہے کہ ان کے لیے کوئی رعایت نہیں مگر ٹیکس چوروں کے لیے ایسی اسکیمیں لائی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سے بد عنوانی کو فروغ حاصل ہوگا۔

’’ایف بی آر خود بدعنوان ادارہ ہے۔ اوپر اوپر سے لوگوں سے معاملات نمٹا کر انہیں تیکس سے بچا دیتے ہیں۔ آپ ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے قانون سازی کریں مگر اس طرح نہیں۔‘‘

اس اسکیم کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر زرعی شعبے پر ٹیکس کا نفاذ کیا جائے اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو موجودہ قوانین کے تحت ٹیکس نہ ادا کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی کرے تو اس سے حاصل ہونے والا ریونیو اس اسکیم سے حاصل ہونے والی رقوم سے بہت زیادہ ہوگا۔

پاکستان میں مجموعی قومی پیداوار کی نسبت ٹیکس شرح صرف 9 فیصد ہے جو کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک کی معیشت کو پائیدار بنانے کے لیے اس شرح کو تقریباً 18 فیصد تک لے جانا اشد ضروری ہے۔
XS
SM
MD
LG