رسائی کے لنکس

اسرائیلی فوجی پر فلسطینی حملہ آور کو قتل کرنے کا جرم ثابت


اسرائیلی فوجی ایلور عزاریہ اپنے والدین کے ساتھ عدالت میں فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے
اسرائیلی فوجی ایلور عزاریہ اپنے والدین کے ساتھ عدالت میں فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے

ایک فوجی عدالت نے اسرائیلی فوجی کو مارچ کے مہینے میں مغربی کنارے میں ایک زخمی فلسطینی حملہ آوار کو قتل کرنے کا مجرم قرار دیا ہے۔ 20 سالہ ایلور عزاریہ کو بیس سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے جو بعد میں سنائی جائے گی۔

الخلیل شہر میں ہونے والا یہ واقعہ اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب اس کی ایک ویڈیو منظرِ عام پر آئی جس میں عزاریہ نے 21 سالہ عبدالفتح الشریف کو اس وقت گولی ماری جب وہ ایک اسرائیلی فوجی پر چھری سے حملہ کرنے کے بعد زخمی ہو کر زمین پر گر چکا تھا۔

عزاریہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ اسے یہ یقین تھا کہ حملہ آوار زخمی ہے لیکن شائد اس نے خود کش بیلٹ پہن رکھی ہو جو خطرناک ہو سکتی تھی۔

عدالت نے تو عزاریہ کے خلاف فیصلہ دے دیا لیکن اس فوجی کے حق میں سینکڑوں مظاہرین بدھ کو عدالت کے باہر جمع ہوئے جن میں بعض کی پولیس سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔

مارچ میں ہونے والا یہ واقعہ تشدد کی اس لہر کا حصہ تھا جو اکتوبر 2015 میں شروع ہوئی۔ ان حملوں میں اب تک 28 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اسرائیلی فورسز نے 200 فلسطینیوں کو ہلاک کیا ہے جن کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ وہ جھری، پستول یا کسی اور ہتھیار سے حملہ کر رہے تھے۔

اس سے پہلے انسانی حقوق سے متعلق ایک تنظیم نے منگل کو اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے تشدد کے واقعات میں ملوث اسرائیلی فوجیوں کے خلاف چلائے جانے والے مقدمات کی شرح کو "غیر معمولی طور پر کم" قرار دیتے ہوئے اس صورت حال پر تنقید کی ہے۔

یش دن نامی تنظیم جو اکثر اسرائیلی فوج کے طرز عمل پر تنقید کرتی رہتی ہے، کی طرف سے یہ رپورٹ فوجی عدالت کی طرف سے ایک اسرائیلی فوجی کے خلاف قتل کے ایک اہم مقدمے کا فیصلہ سنائے جانے سے ایک روز پہلے سامنے آئی ہے۔

اپنی سالانہ رپورٹ میں یش دن نے کہا کہ فوج نے 2015 کے دوران فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے 186 مشتبہ جرائم کی تحقیقات شروع کیں تاہم ان میں سے صرف چار تحقیقات ایسی تھیں جن کی وجہ سے مجرموں کو سزا سنائی گئی تھی۔ اس تنظیم کا کہنا ہے کہ 2015 سے متعلق اعداد و شمار کی بنیاد فوج کی طرف سے سرکاری طور پر جاری کیا گیا تازہ ترین ڈیٹا ہے۔

XS
SM
MD
LG