رسائی کے لنکس

جنوبی افغانستان میں طالبان کا حملہ، 25 فوجی ہلاک


افغان صوبے ہلمند میں طالبان کے حملے کے بعد ایک عمارت سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ فائل فوٹو
افغان صوبے ہلمند میں طالبان کے حملے کے بعد ایک عمارت سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ فائل فوٹو

مقامی ٹیلی وژن چینلز نے جنگ زدہ صوبے ہلمند کے سیکیورٹی اہل کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک خودکش بمبار نے جمعرات کی سہ پہر بارود سے بھری اپنی کار افغان انٹیلی جینس ایجنسی کے دفتر سے ٹکرا دی۔

افغانستان کے جنوبی حصے میں ایک خودکش کار بم دھماکے اور طالبان کے ساتھ جھڑپوں میں کم از کم 25 افغان فوجی ہلاک ہو گئے۔

تشدد کا یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا ہے جب اقوام متحدہ نے افغان تنازع کے دونوں فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے دوران لڑائیوں سے گریز کریں۔ ماہ رمضان چند روز میں شروع ہو رہا ہے۔

مقامی ٹیلی وژن چینلز نے جنگ زدہ صوبے ہلمند کے سیکیورٹی اہل کاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ایک خودکش بمبار نے جمعرات کی سہ پہر بارود سے بھری اپنی کار افغان انٹیلی جینس ایجنسی کے دفتر سے ٹکرا دی۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق کم ازکم 6 افراد ہلاک اور کئی زخمی ہو ئے۔

طالبان نے تشدد کے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ دھماکہ خیز مواد سے ضلع واشیر کا ایک دفتر تباہ کر دیا گیا اور اس حملے میں کم ازکم 20 افراد ہلاک ہو گئے۔

اسلامی عسکریت پسند اکثر أوقات اس طرح کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔

صوبے ہلمند کے زیادہ تر حصے پر یا تو طالبان کا کنٹرول ہے یا وہ علاقہ ان کے زیر اثر ہے۔

ایک اور خبر میں بتایا گیا ہے کہ قریبی صوبے قندھار کے عہدے داروں نے مقامی میڈیا سے ساتھ اپنی گفتگو میں کہ تصدیق کی ہے کہ بدھ کی رات طالبان کے حملے میں کم از کم 13 أفغان فوجی ہلاک اور 8 زخمی ہو گئے تھے۔

سیکیورٹی عہدے داروں کا کہنا تھا کہ ضلع میوند کے ایک فوجی مرکز پر ہونے والی اس جھڑپ میں درجنوں عسکریت پسندوں نے حصہ لیا۔

جمعرات ہی کے روز أفغانستان نے شمالی شہر قندوز میں عہدے داروں نے بتایا کہ جمعرات کی صبح طالبان کی جانب سے داغا گیا ایک راکٹ ایک سکول پر گرا جس سے کم ازکم ایک طالب علم ہلاک اور 9 زخمی ہو گئے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یواین اے ایم اے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس سال کے پہلے چار مہینوں کے دوران عام شہریوں کی ہلاکتوں کی تعداد پہلے ہی ریکارڈ سطح تک پہنچ چکی ہے۔

XS
SM
MD
LG