رسائی کے لنکس

کراچی : بدامنی کے باعث امدادی منصوبے بھی خطرے میں


فلاحی کام کرنے والے رضاکاروں کی موت سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ کارکنوں میں عدم تحفظ اور خوف پیدا ہوتا ہے اور ۔۔۔

کراچی میں طویل عرصے سے جاری بدامنی اور امدادی کارکنوں خاص کر پولیو کی رضا کار ٹیموں پر حملوں اور قتل کی وارداتوں نے انسانی ہمدردی اور فلاح و بہبود کے منصوبوں کو ٹھپ کردیا ہے ۔

انسانی ہمدردی و فلاح و بہبود کے تحت چلنے والے کلینک، ڈسپنسری ، اسپتال ، اسکولز اور دیگر امدادی ادارے وغیرہ بری طرح متاثرہورہے ہیں۔ عملہ خوف کا شکار ہے اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والے ان حملوں سے سب سے زیادہ نقصان انسانیت کو پہنچے گا۔
حقوق انسانی کے ادارے کے مطابق کراچی میں گزشتہ بر س 2000 افراد اسی طرح کے پر تشددحملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے جن میں امدادی کارکن بھی شامل تھے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹیگریٹیڈ ریجنل انفارمیشن نیٹ ورکس کی جاری کردہ ایک رپورٹس کے مطابق سہراب گوٹھ پر امدادی کارکنوں پر جان لیوا حملوں کے بعد وہاں نچلی سطح پر کام کرنے والی ایک ڈسپنسری پر یہ عالم ہے کہ وہاں صبح ہوتے ہی مریضوں کی لائنیں لگنا شروع ہوجاتی ہیں ، لوگ کئی کئی گھنٹے وہاں کھڑے ہوتے ہیں اور بلاخر مایوس ہوکر واپس چلے جاتے ہیں۔
لائن میں موجود سلیم احمد نامی ایک شخص نے بتایا کہ ڈسپنسری کے عملے کو کچھ دنوں سے دھمکیاں مل رہی تھیں ۔ عملہ اتنا خوفزدہ ہے کہ پچھلے کئی دن سے ڈسپنسری نہیں آیا ۔
امدادی کارکن کے طور پر مشہورکراچی کے شہری عبدالوحید نے سترہ سال پہلے تعلیم عام کرنے کی غرض سے قصبہ کالونی کے علاقے میں ’برائٹ ایجوکیشنل سوسائٹی ‘ بنائی تھی جس کے تحت ایک اسکول کھولا جہاں معمولی فیس ادا کر کے داخلہ لینے والے 800بچے زیر تعلیم ہیں۔ بجائے تعریف و توصیف کے انہیں ایک ماہ قبل ان کی بیٹی اور بھائی کی آنکھوں کے سامنے فائرنگ کرکے ہلاک کردیا گیا۔
عبدالوحید کے قریبی ساتھیوں کو یقین ہے کہ ان کے قتل میں وہ انتہا پسند ملوث ہیں جو لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں۔ عبدالوحید کے قتل کے بعدآدھے سے زیادہ بچے اسکول چھوڑ کر جا چکے ہیں اور برائٹ ایجوکیشنل سوسائٹی کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہوگیا ہے۔
عبدالوحید کی جگہ برائٹ ایجوکیشنل سوسائٹی کا انتظام سنبھالنے والے سید لطیف کا کہنا ہے کہ” ہمیں فنڈز کی سخت ضرورت ہے ،ہمارے پاس عملے کو تنخوا ہیں دینے کے پیسے نہیں۔ یہ صورتحال زیادہ دن تک نہیں چل سکتی ۔“
اسلام آباد میں قائم این جی اونیشنل ہیوٹیرینز نیٹ ورکس کے ترجمان ایمل خٹک کے مطابق” فلاحی کام کرنے والے رضاکاروں کی موت سے کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔ جس فلاحی ادارے کا کارکن پرتشدد حملوں میں مارا جاتا ہے اس کے دوسرے کارکنوں میں عدم تحفظ اور خوف پیدا ہوتا ہے اور وہ کام پرآنے میں ہچکچاتے ہیں۔ فنڈز فراہم کرنے والے ادارے نشانہ بننے والی تنظیم کو فنڈز کی فراہم یاتو روک دیتے ہیں یا اس میں کمی کردی جاتی ہے۔ “
رواں سال مارچ میں اورنگی پائلٹ پروجیکٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر پروین رحمن بھی عبدالوحید کی طرح نامعلوم مسلح حملہ آوروں کے ہاتھوں زندگی کی بازی ہار گئیں۔ ان کی موت سے او پی پی کی ان کوششوں کو شدید د ھچکا لگا جو وہ دنیا کی سب سے بڑی کچی آبادی اورنگی میں لوگوں کا معیار زندگی بہتر بنانے کے لئے انجام دے رہی تھیں۔
لیاری کے رہائشی عبدالرئیس کا کہنا ہے ”ہمارے لئے کام کرنے والے لوگوں کو وہ مار رہے ہیں جو حالات میں بہتری نہیں چاہتے،جو لڑکیوں کی تعلیم کے مخالف ہیں اور این جی اوز کودوسرے ممالک سے جوڑتے ہیں۔‘ عبدالرئیس کی بیٹی نے ایک این جی اوکی جانب سے چلائے جانے والے اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے۔
بہت سے سیاسی ، مذہبی اور دیگر گروپ شہر کے مختلف علاقوں میں اپنا اثر رسوخ قائم رکھنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ ایسے لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو عام شہری کے لئے کچھ کر رہا ہو۔ رواں سا ل مارچ کے مہینے میں بلدیہ اتحاد ٹاوٴن میں این جی او کی مدد سے چلائے جانے والے گرلز اسکول کے پرنسپل عبدالرشید کو دستی بم کے حملے اور فائرنگ میں قتل کردیا گیا۔
عبدالرشید کے اسکول کی ایک خاتون ٹیچر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا”’رشید کا تعلق خیبر پختونخواہ سے تھا ۔ وہ اچھے انسان تھے اور لڑکیوں کی تعلیم خصوصا ًپختون بچیوں کی تعلیم کے بہت بڑے حامی تھے اور اپنے آپ کو اس مقصد کے لئے وقف کر رکھا تھا۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا” ہمیں نہیں معلوم کہ عبدالرشید کو کیوں قتل کیا گیا۔ لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کام کرنے پر،سیاسی وابستگی پر یاپھر مافیا کو بھتہ دینے سے انکار پر۔“
خاتون اسکول ٹیچر کو ان کے گھر والوں نے اسکول جانے سے روک دیا ہے۔ عبدالرشید کے قتل کے واقعے میں بہت سے طالبعلم بھی زخمی ہوئے تھے۔
گذشتہ سال دسمبر میں ہونے والے تین واقعات ایسے ہوئے جن میں فائرنگ کر کے چار خواتین پولیوورکرز کو ہلاک اور دو مرد ورکرز کو زخمی کردیا گیا۔ ان واقعات کے بعد پولیو ویکسی نیشن مہم کے جاری رہنے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
امدادی کارکنوں پرہونے والے حملوں کے لڑکیوں کی تعلیم اور ویکسی نشن پروگرام جیسے فلاحی کاموں پر منفی اثرا ت مرتب ہوتے ہیں اور فلاحی کاموں میں حصہ لینے والے افراد عدم تحفظ اور خوف کا شکار ہوجاتے ہیں۔بہت کم لوگ خود کو امدادی کاموں کے لئے پیش کرتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لوگو ں کو میڈیکل اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے والے دارے بند ہوجاتے ہیں اور غریبوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے۔
ایمل خٹک کا کہنا ہے ” این جی اوز ایسے علاقوں میں جہاں اس قسم کے واقعات ہوچکے ہوں کام کرنے سے کتراتی ہیں کیونکہ انہیں دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے اور حملوں کا بھی۔ ایسا بار باربھی ہوتا رہا ہے۔ “
XS
SM
MD
LG