رسائی کے لنکس

مذاکرات کی بحالی کا اعلان خوش آئند ہے: قانون ساز و مبصرین


اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کی بحالی کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔

پاکستان اور بھارت کے مابین دو طرفہ جامع مذاکرات کی بحالی کے اعلان کو خاصی پذیرائی حاصل ہو رہی ہے اور اسے خطے میں امن و خوشحالی کے اہداف کے حصول کے لیے ایک اچھی پیش رفت سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔

بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بدھ کو اسلام آباد میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز سے ملاقات کے بعد مذاکرات کی بحالی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب اس کے نظام الاوقات اور جزیات باہمی مشورے سے طے کی جائیں گے۔

امریکہ نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے حوصلہ افزا پیش رفت قرار دیا اور محکمہ خارجہ کے ترجمان کے بقول امریکہ کا یہ اصرار رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت اپنے معاملات بات چیت کے ذریعے حل کریں۔

مذاکرات کی بحالی کا اعلان خوش آئند ہے: قانون ساز
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:05 0:00

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کی بحالی کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔

دونوں روایتی حریف ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین حالیہ مہینوں میں تعلقات شدید کشیدہ ہو چلے تھے اور دونوں ملک ہی تعطل کے شکار بات چیت کے عمل میں ایک دوسرے کی طرف سے پہل کا انتظار کرتے آرہے تھے۔

پاکستانی قانون سازوں نے بھی مذاکرات کی بحالی کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے اعتماد سازی کا عمل بھی شروع ہوگا جو آگے چل کر دیگر باہمی تنازعات کے حل میں مددگار ثابت ہوگا۔

رکن قومی اسمبلی اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ "ظاہر ہے بغیر اعتماد کے تو کوئی بھی معاملہ آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن میں اس میں سنجیدگی اور نیتی ہونی چاہیے، جہاں تک مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کی بات ہے تو ہم اس کو خوش آمدید کہتے ہیں اس کو آگے بڑھنا چاہیے پوری نیک نیتی کے ساتھ پوری سنجیدگی کے ساتھ۔"

فاٹا سے رکن قومی اسمبلی غازی گلاب جمال کہتے ہیں کہ اسلام آباد میں منعقدہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس نے پاکستان، افغانستان اور بھارت کے اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کو مل بیٹھنے کا موقع فراہم کیا جس کے بعد انھیں امید ہے کہ ان تینوں ملکوں کے مابین غلط فہمیاں دور ہوں گی اور بات چیت سے معاملات بہتری کی طرف بڑھیں گے۔

"بات صاف کرنی چاہیے، افغانستان کو شکایت ہے پاکستان سے، پاکستان کو شکایت ہے بھارت سے۔ بھارت خود کو خطے کی سپر پاور تصور کرتے ہوئے سب کو اپنا چھوٹا سمجھتا ہے تو یہ تینوں پہلی بار اکٹھے بیٹھے ہیں تو میں پرامید ہوں کہ یہ (معاملات) اب اچھی طرف جائیں گے۔"

باہمی جامع مذاکرات کے تحت امن و استحکام، انسداد دہشت گردی، اعتماد سازی کے فروغ کے اقدام، جموں و کشمیر، سیاچن، سرکریک وولر بیراج، اقتصادی و تجاری تعاون، انسداد منشیات اور عوامی سطح پر رابطے بڑھانے سمیت مختلف دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

سینیئر تجزیہ کار پروفیسر حسن عسکری رضوی مذاکرات کی بحالی کے اعلان کو پیش رفت تو نہیں لیکن اس کا ایک موقع تصور کرتے ہیں اور وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کو ماضی کی نسبت اپنے اپنے رویوں اور موقف میں تھوڑی بہت لچک دکھانا ہوگی۔

بھارتی وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں یہ بھی انکشاف کیا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی آئندہ برس سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئیں گے۔

XS
SM
MD
LG