رسائی کے لنکس

یورپی یونین کا افغان انتخابات کے اعلان کا خیر مقدم


یورپی یونین کے صدر دفتر کے باہر رکن ملکوں کے جھنڈے لہرا رہے ہیں (فائل فوٹو)
یورپی یونین کے صدر دفتر کے باہر رکن ملکوں کے جھنڈے لہرا رہے ہیں (فائل فوٹو)

افغانستان کے لیے یورپی یونین کے خصوصی نمائندے نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اس بات کا مظہر ہے کہ افغان حکام سیاسی وعدوں کے عین مطابق اپنے فرائض نبھا رہے ہیں

یورپی یونین (ای یو) نے افغانستان میں اپریل 2014ء میں انتخابات کرانے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔

افغانستان کے لیے ای یو کے خصوصی نمائندے وائیگوڈس اوساکس نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ اس بات کا مظہر ہے کہ افغان حکام سیاسی وعدوں کے عین مطابق اپنے فرائض نبھا رہے ہیں۔

افغانستان میں گزشتہ صدارتی انتخابات تنقید اور تحفظات کی زد میں رہے
افغانستان میں گزشتہ صدارتی انتخابات تنقید اور تحفظات کی زد میں رہے

اُنھوں نے کہا کہ یورپی یونین ایسے انتخابات کی حامی ہے جو ’’شفاف اور تمام متعلقین کا احاطہ کریں اور جن کے نتائج پر کسی کو اعتراض نہ ہو۔

صدر حامد کرزئی دو مرتبہ اس عہدے کے لیے منتخب ہو چکے ہیں اور افغانستان کا آئین اُنھیں تیسری مرتبہ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتا۔

ملک کے آزاد الیکشن کمیشن نے بدھ کو اعلان کیا تھا کہ صدارتی اور صوبائی انتخابات پانچ اپریل 2014ء کو ہوں گے۔ ادارے کے سربراہ فضل احمد مناوی نے اس موقع پر طالبان اور حزبِ اسلامی سمیت تمام باغی تنظیموں سے ہتھیار پھینکنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔

لیکن دوسری طرف عسکریت پسندوں کی کارروائیاں جاری ہیں اور بدھ کو جنوبی صوبوں میں ہونے والے مختلف حملوں میں سترہ افغان شہری ہلاک ہوگئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔

اُدھر صدر کرزئی کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ نجی کابل بینک کے غبن کیے گئے نوے کروڑ ڈالر میں سے تقریباََ چودہ کروڑ ڈالر نقد اور اٹھارہ کروڑ ڈالر مالیت کے اثاثے واپس حاصل کیے جا چکے ہیں.

مزید برآں قرض لینے والوں نے اعتراف کیا ہے کہ بینک کے تقریباً بائیس کروڑ ڈالر ان کے ذمے ہیں تاہم یہ رقم ابھی واپس نہیں ملی ہے۔ تاہم صدارتی دفتر کے بیان میں کہا گیا ہےکہ باقی کے پچاس کروڑ ڈالر کے حقائق ابھی متنازع ہیں۔

بد انتظامی، من پسند افراد اور متنازع شرائط پرایک ارب ڈالر تک کے قرضے دینے کے بعد کابل بینک 2010ء میں دیوالیہ پن کا شکار ہو گیا تھا۔

بعد ازاں افغانستان کے مرکزی بینک نے مداخلت کر کے کابل بینک کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔

افغان حکومت امریکہ سے مطالبہ کر رہی ہے کہ گزشتہ سال ملک سے فرار ہونے والے مرکزی بینک کے سابق سربراہ، عبدالقادر فطرت، کو اُس کے حوالے کیا جائے۔

فطرت نے کہا ہے کہ کابل بینک کے کروڑوں ڈالر چرانے والوں کا احتساب کرنے کی کوششوں نے اُن کی زندگی خطرے میں ڈال دی تھی اس لیے وہ ملک سے فرار ہوئے۔

افغان عہدے دار کہتے ہیں کہ مرکزی بینک کے سابق سربراہ پر کابل بینک اسکینڈل میں کردار ادا کرنے کا الزام ہے اس لیے اُن کی حوالگی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
XS
SM
MD
LG