رسائی کے لنکس

افغان اپنے مستقبل کے بارے پہلے سے زیادہ نا امید: جائزہ رپورٹ


عبداللہ احمدزئی ایشیا فاؤنڈیشن کے نمائندہ برائے افغانستان
عبداللہ احمدزئی ایشیا فاؤنڈیشن کے نمائندہ برائے افغانستان

2014 کے اواخر میں بین الاقوامی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد سے افغانستان بھر میں طالبان کے حملے میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

افغانستان میں کیے گئے ایک عوامی جائزے کے مطابق ملک کے تقریباً 70 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ ان کا ملک غلط سمت کی طرف گامزن ہے، اور گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہ افغان عوام کی طرف سے اپنے ملک کے بارے میں اعتماد کی سب سے کم سطح کا اظہار ہے۔

امریکہ کے شہر سان فرانسیسکو میں قائم ایشیا فاؤنڈیشن کی طرف سے بدھ کو جاری ہونے والی سالانہ جائزہ رپورٹ کے مطابق "افغانستان میں قومی سطح پر لوگوں میں امید ریکارڈ حد تک کم سطح پر ہے اور (ملک میں لوگ) عدم تحفط، بدعنوانی، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور روزگار کی مواقعوں میں سست روی سے اضافہ کی وجہ سے نا امیدی کا شکار ہیں۔"

ایشیا فاؤنڈیشن کے جائزے میں بتایا گیا ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ بات چیت کے عمل کا شروع نا ہونا، طالبان جنگجوؤں کی طرف سے نئی جنگی کارروائیوں اور 2016 کے دوران ایک ریکارڈ تعداد میں لوگوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی وجہ سے بھی لوگوں میں نا اُمیدی بڑھی۔

جائزہ رپورٹ کے مطابق ہلاک و زخمی ہونے والے عام شہریوں کی تعداد میں اضافہ، تشدد کی وجہ سے خراب ہوتی ہوئی سلامتی صورت حال اور گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے کے دوران افغان عوام میں خوف کی ایک بلند ترین سطح، افغانوں کے عدم اعتماد کی وجہ بنی۔

جائزے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ "ہلمند میں جہاں باغیوں کی حملوں میں تیزی آئی ہے اور وہاں اب طالبان کا صوبے کے بیشتر حصے پر کنٹرول ہے۔ اس صوبے کے 92.3 فیصد (لوگوں کا ) کہنا ہے کہ وہ بعض اوقات یا اکثر و ہمیشہ خوف کا شکار ہو جاتے ہیں، ایسے لوگوں کی تعداد میں 2015 کے مقابلے میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ 2014 کے مقابلے میں یہ تعداد 25 فیصد زیادہ ہے۔"

2014 کے اواخر میں بین الاقوامی لڑاکا افواج کے انخلا کے بعد سے افغانستان بھر میں طالبان کے حملے میں اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے کئی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔

افغانستان میں بین الاقوامی فورسز کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے گزشتہ ہفتہ کہا تھا کہ افغانستان کا دو تہائی کے قریب علاقہ سرکاری کنٹرول میں ہے جب کہ طالبان کا کنٹرول 10 فیصد سے بھی کم علاقے پر ہے اور باقی ماندہ علاقے میں لڑائی جاری ہے۔

مشرق وسطیٰ میں سرگرم شدت پسند گروپ داعش کے حامی بھی 2015 کے اوائل سے افغانستان میں منظر عام پر آنا شروع ہوئے جس کی وجہ سے صدر اشرف غنی کی زیر قیادت اتحادی حکومت کے لیے چیلنج میں اضافہ ہوا ہے۔

تاہم جائزے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ داعش کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ تصور کرنے کا تاثر 2015 میں 54.2 فیصد تھا جبکہ رواں سال یہ کم ہو کر 47.9 فیصد ہو گیا ہے۔

ایشیا فاؤنڈیشن کے افغانستان میں نمائندے عبداللہ احمد زئی کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں لوگوں میں ذاتی تحفظ کا احساس نظر نہیں آتا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ملک کئی دہائیوں کی جنگ اور شورش سے باہر آ رہا ہے۔

صدر اشرف غنی کی حکومت کے اندرونی اختلافات کی وجہ سے افغان اور امریکہ کی قیادت میں اس کے بین الاقوامی حامیوں کے لیے یہ صورت باعث پریشانی ہے۔

جائزہ رپورٹ کے مطابق اس سال کی جائزہ رپورٹ کے مطابق افغانوں کا اپنی حکومت پر اعتماد۔۔۔ کے علاوہ سرکاری اداروں اور این جی اوز (غیر سرکاری اداروں) پر اعتماد تاریخی طور کم سطح پر نظر آیا۔

XS
SM
MD
LG