رسائی کے لنکس

مذاکرات سے قبل شرائط ساز گار ثابت نہیں ہوں گی: سرتاج عزیز


افغانستان میں امن و مصالحت سے متعلق چار فریقی اجلاس سے خطاب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ سیاسی مصالحت ایک پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہے۔

پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کے وفود کا چار فریقی اجلاس پیر کو اسلام آباد میں ہوا جس میں افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے طالبان سے مذاکرات کے بارے میں بات چیت کی گئی اور اس ضمن میں آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے کانفرنس کے آغاز پر شرکا سے خطاب میں کہا کہ طالبان سے مذاکرات سے قبل کسی طرح کی شرائط عائد کرنا اس عمل کے ساز گار نہیں ہو گا۔

سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ طالبان کے تمام گروہوں کو مذاکرات کی پیشکش اور اُن کی طرف سے اس بارے میں جواب آنے سے قبل بات چیت سے انکاری طالبان کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی سود مند نہیں ہو گی۔

اُنھوں نے کہا ہے کہ مذاکرات کے لیے آمادہ یا بات چیت سے انکار کرنے والے طالبان کے بارے میں تفریق اور اُن سے نمٹنے کے بارے میں حتمی فیصلہ صرف اُسی صورت کیا جائے جب طالبان کو بات چیت کے عمل کی جانب لانے کے لیے تمام کوششیں کی جا چکی ہوں۔

بعد ازاں ایک اور تقریب سے خطاب میں سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کو اُمید ہے کہ یہ چاروں ملک افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے ایک دوسرے سے قریبی رابطے میں رہیں گے۔

سرتاج عزیز نے کہا کہ یہ عمل افغانوں ہی کی قیادت میں ہونا چاہیئے کیوں کہ اُن کے بقول باہر سے تجویز کردہ حل دیر پا نہیں ہو گا۔ اُنھوں نے کہا کہ اس عمل میں پاکستان، چین اور امریکہ کا کردار سہولت کار کا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ سیاسی مصالحت ایک پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہے جس کے لیے تمام فریقوں کی طرف سے ایک دوسرے کے موقف کو سمجھنے ہی سے کامیابی کی طرف پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے۔

پاکستان کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین سید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ امریکہ اور چین کی اس عمل میں شرکت سے افغان امن عمل کے لیے کی کوششوں کو تقویت ملے گی۔

اس پہلے چار فریقی اجلاس میں افغانستان کے نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی، پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن اور افغانستان کے لیے چین کے خصوصی ایلچی ڈینگ شی جن جب کہ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری نے اپنے ممالک کے وفود کی قیادت کی۔

طالبان کی طرف سے اس چار فریقی اجلاس کے بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

گزشتہ ماہ ہی اسلام آباد میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر افغان امن عمل کو بحال کرنے کے لیے کوششوں کو تیز کرنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ جب کہ اُسی اجلاس میں چار فریقی اسٹئیرنگ کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق کیا گیا تھا اور اُسی سلسلے میں پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں کا اسلام آباد اجلاس ہوا۔

پاکستان کی میزبانی میں گزشتہ سال افغان طالبان اور حکومت کے نمائندوں کے مابین پہلی براہ راست ملاقات اسلام آباد کے قریب سیاحتی مقام مری میں ہوئی تھی جسے جنگ سے تباہ حال ملک میں مصالحتی عمل کے لیے ایک امید افزا پیش رفت قرار دیا گیا لیکن یہ عمل ایک ہی ملاقات کے بعد تعطل کا شکار ہو گیا۔

طالبان کے آپسی اختلافات اور پھر افغانستان میں ان کی بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں کے بعد یہ خدشات بھی پیدا ہو چکے ہیں کہ آیا طالبان اس عمل میں کس حد تک شامل ہونے کے لیے تیار ہوں گے۔

افغانستان کے صدر اشرف غنی چار فریقی کوششوں سے خاصے پرامید دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے تمام فریقین کو یہ امتیاز کرنے میں مدد ملے گی کون سے عسکریت پسند مصالحت چاہتے ہیں اور کون اس کے مخالف ہیں۔

اُدھر فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے پیر کی شام جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے جنرل راحیل شریف سے راولپنڈی میں ملاقات کی ہے۔

بیان کے مطابق ملاقات میں خطے میں سلامتی صورت حال کا خاص طور پر افغانستان کے تناظر میں جائزہ لیا گیا۔

XS
SM
MD
LG