رسائی کے لنکس

صدرکرزئی کے طالبان دھڑوں سے رابطے، صورتحال غیر واضح


صدرکرزئی کے طالبان دھڑوں سے رابطے، صورتحال غیر واضح
صدرکرزئی کے طالبان دھڑوں سے رابطے، صورتحال غیر واضح

افغانستان میں صدر حامد کرزئی کی حکومت اور طالبان کے بعض دھڑوں کے درمیان ممکنہ امن مذاکرات کے سلسلے میں ابتدائی رابطے ہوئے ہیں۔ ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اشاروں کنایوں میں یہ باتیں کس سطح پر ہو رہی ہیں لیکن ان تمام پارٹیوں کے مقاصد جنہیں افغان امن مذاکرات میں دلچسپی ہے، اکثر مختلف اور باہم متصادم ہیں۔

کرزئی حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے ان ابتدائی مذاکرات میں کون شرکت کر رہا ہے اور کن موضوعات پر بات چیت ہو رہی ہے اس پر تاریکی کا پردہ پڑا ہوا ہے۔ لیکن اقوامِ متحدہ کی القاعدہ طالبان مانیٹرنگ ٹیم کے کو آرڈینیٹر رچرڈ بیررٹ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان ابتدائی مذاکرات کا محرک یہ متفقہ احساس ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوجی حل کار گر نہیں ہو گا’’ میرے خیال میں یہ وقت بڑا مناسب ہے کیوں کہ ہر کوئی اب یہ سمجھ گیا ہے کہ لڑائی کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ ہر ایک پروقت کا شدید دباؤ ہے۔ یہاں امریکہ میں داخلی دباؤ ہے۔ جنگ کی مقبولیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ اس کی افادیت کے بارے میں سوالات کرنے لگے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ جلد ختم ہو جائے۔ اور یہ احساس ان دوسرے ملکوں میں اور بھی زیادہ شدید ہے جنھوں نے افغانستان کی جنگ کے لیئے سپاہی دیے ہیں‘‘۔

طالبان مسلسل انکار کر رہےہیں کہ کسی قسم کی بات چیت ہوئی ہے۔ ان کا اصرار ہے کہ مذاکرات سے پہلے غیر ملکی فورسز کو واپس جانا ہو گا۔ لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس موقف کا مقصد اپنی تحریک میں اتحاد برقرار رکھنا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ پہلے طالبان کو اپنے ہتھیار ڈالنے ہوں گے القاعدہ سے تعلق ختم کرنا ہوگا اور افغان آئین کو قبول کرنا ہوگا۔

افغانستان کے لیے یورپی یونین کے سابق خصوصی مندوب Francesc Vendrell کہتے ہیں کہ یہ سب باتیں اس لیے کی جاتی ہیں کہ مذاکرات میں انہیں سودے بازی کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ان کا کہنا ہے کہ’’میں ایک لمحے کے لیے بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ یہ کوئی پیشگی شرائط ہوں گی۔ ان چیزوں پر مذاکرات کے دوران بات چیت ہوگی لیکن پیشگی شرائط کے طور پرنہیں۔ ہم میں سے بہت سے لوگ یہی سمجھتے رہے ہیں بالکل اسی طرح جیسے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ طالبان مذاکرات کی میز پر اس وقت تک نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ مغربی ملکوں کی فوجیں واپس نہیں چلی جاتیں‘‘۔

یقین کے ساتھ تو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ آخری سیاسی حل کیا نکلے گا۔ لیکنFrancesc Vendrell کا خیال ہے کہ یہ کوئی مخلوط حکومت نہیں ہوگی بلکہ حکومت کی کوئی دوسری شکل ہو گی جس میں مقامی اور علاقائی سطحوں پر اقتدار میں شرکت ہو گی۔

اوباما انتظامیہ دسمبر میں افغان پالیسی کا دوبارہ جائزہ لے گی۔ اگر حالات نے اجازت دی تو صدر اوباما جولائی سے امریکی فوجوں کو واپس بلانا شروع کر دیں گے۔

لیکن بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں کوئی بھی حل نکلے سیکورٹی کی ضمانت کے لیے کچھ غیر ملکی فوجیں وہاں ضرور موجود رہیں گی۔

رچرڈ بیررٹ کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ طالبان اسے پسند نہ کریں، لیکن 1992 کے واقعات سے بچنے کے لیے جب مجاہدین نے سوویت فوجوں کو شکست دینے کے بعد آپس میں لڑنا شروع کر دیا تھا، یہ سب سے اچھا انتظام ہوگا۔ ’’کچھ عرصے تک امریکی یا کوئی دوسری فورسز رکھنے سے وہاں حالات مستحکم ہوں گے اوراس عرصے میں ایک نیا سیاسی عمل شروع ہو جائے گا اور ایک نئی حکومت قائم ہو جائے گی۔ میرے خیال میں ممکن ہے کہ طالبان یہ سوچنے لگیں کہ ہم لڑنا جھگڑنا نہیں چاہتے اور ہم بھاری تعداد میں غیر ملکی فوجیں بھی نہیں چاہتے جو یہا ں موجود ہیں لیکن یہاں کچھ استحکام ضروری ہے تا کہ ہم اپنے مسائل حل کر سکیں‘‘۔

ہمسایہ ملک پاکستان کا مفاد بھی ان مذاکرات سے وابستہ ہے اور وہ بھی چاہےگا کہ مذاکرات میں اس کی بات بھی سنی جائے۔ لیکن Francesc Vendrell کہتے ہیں کہ نئے مذاکرات میں اگر پاکستان کا کوئی رول ہے بھی تو وہ بڑا مبہم ہے۔’’ جو بات بالکل واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان ان کوششوں کو سبو تاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ کیا وہ مکمل طور سے غیر جانبدار ہے؟ کیا امریکی عہدے دار پاکستانی فوج اورآئی ایس آئی کو اس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ اگر یہ مذاکرات انکی معرفت نہیں ہو رہے ہیں، تو بھی وہ انہیں سبو تاژ کرنے سے باز رہیں؟ میرے پاس اس سوال کا جواب نہیں ہے‘‘۔

پاکستان کو افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر گہری تشویش ہے۔ تجزیہ کار کہتےہیں کہ اسی خوف کی وجہ سے پاکستان کی فوج اور انٹیلی جنس کے بعض عناصر سرکاری اور غیر سرکاری طور پر طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک بھارت کے اثر و رسوخ کا توڑ کرنے کے لیے یہ انتظام ضروری ہے۔

امریکی عہدے داروں کو بدستور تشویش ہے کہ پاکستان نے واشنگٹن کے نقطہ نظر سے طالبان اور القاعدہ کی ان پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے لیے جو پاکستان میں واقع ہیں خاطر خواہ کارروائی نہیں کی ہے۔

XS
SM
MD
LG