رسائی کے لنکس

افغان امریکہ تناؤ کے ممکنہ منفی اثرات


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

افغانستان کے صدر حامد کرزئی اور امریکہ کے فوجی عہدے داروں کے درمیان کشیدگی اور امریکی فوجوں کے کردار اور ان کی تعیناتی کے مقامات کے بارے میں اختلافات سے تنازعات اور بد اعتمادی پیدا ہو رہی ہے۔

افغانستان کے صدر حامد کرزئی اور امریکہ کے فوجی عہدے داروں کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے اگلے سال نیٹو اور امریکی فوجوں کی واپسی سے پہلے منظم انداز سے سیکورٹی کی ذمہ داریاں افغانستان کو منتقل کیے جانے کا معاملہ خطرے میں پڑ رہا ہے۔

امریکی فوجوں کے کردار اور ان کی تعیناتی کے مقامات کے بارے میں اختلافات سے تنازعات اور بد اعتمادی پیدا ہو رہی ہے۔

امریکہ مردہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے سینکڑوں لوگ صوبہ وردک سے افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچ گئے۔ وہ امریکی فوجوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

ان الزامات کے بعد کہ جو افغان وردک میں اسپیشل فورسز کے لیے کام کر رہے ہیں انھوں نے وہاں رہنے والوں کو اذیتیں دی ہیں افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے حکم دیا کہ امریکہ کی اسپیشل فورسز وردک سے نکل جائیں۔

خلیل اللہ ابراہیم خیل وردک میں رہتے ہیں۔‘‘ہم یہاں اس لیے جمع ہوئے ہیں تاکہ وردک میں امریکی اسپیشل فورسز کے خلاف احتجاج کریں کیوں کہ وہ لوگوں کے گھروں میں گُھس جاتے ہیں اور بے قصور لوگوں کو اذیتیں دیتے ہیں۔’’

اگرچہ امریکہ کے ملٹری لیڈروں نے ان الزامات کی صحت سے انکار کیا لیکن اسپیشل فورسز وردک میں بدستور موجود رہیں۔ یہ صوبہ کابل کے نزدیک واقع ہے اور باغیوں کو چوری چھپے کابل میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے اس کی سیکیورٹی اہم خیال کی جاتی ہے۔

بدھ کے روز ایک سمجھوتے کا اعلان کیا گیا جس کے تحت امریکی سپاہیوں کو بتدریج وردک سے نکال لیا جائے گا۔ اس سے قبل ایک اور تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا جب صدر کرزئی نے امریکہ پر طالبان کے ساتھ ملی بھگت کا الزام عائد کیا۔

‘‘طالبان، امریکیوں اور غیر ملکیوں کے درمیان یورپ میں اور خلیج کی ریاستوں میں روزانہ مذاکرات جاری ہیں۔’’

ان الزامات سے امریکی وزیرِ دفاع چیک ہیگل کے حالیہ دورے میں پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔ مسٹر کرزئی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس اچانک منسوخ کر دی گئی اور بگرام کے قید خانے کو افغان حکومت کے حوالے کرنے کا معاملہ بھی منسوخ کر دیا گیا ۔

وزیر خارجہ ہیگل نے کہا کہ امن کے لیے جو بھی مذاکرات ہوں گے وہ افغانوں کی قیادت میں ہوں گے۔

‘‘میں نے افغان صدر کو بتا دیا کہ یہ صحیح نہیں ہے کہ امریکہ کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے یکطرفہ طور پر طالبان کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔’’

امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا مقصد افغانستان میں امن کا عمل شروع کرنا تھا ایک سال قبل روک دیے گئے تھے۔

حال ہی میں افغانستان کا سفر کرنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ اس قسم کے مذاکرات کے نتیجے میں کوئی با معنی تصفیہ ہو سکے گا۔

سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے اینتھونی گراڈسمین کہتے ہیں کہ ‘‘اس بارے میں شدید تشویش موجود ہے کہ امن مذاکرات بے نتیجہ ثابت ہو سکتے ہیں اور ان کی نتیجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں نکلے گا کہ جنگ دوسرے ذرائع سے طول پکڑ جائے۔’’

آج کل پورے ملک میں 350,000 سے زیادہ افغان فوجی موجود ہیں لیکن اس بارے میں شبہات باقی ہیں کہ کیا وہ ملک کی حفاظت کر سکتے ہیں۔

اینھتونی کہتے ہیں کہ اگلے سال انتخابات ہونے والے ہیں لیکن سیکورٹی اور شفافیت کے بارے میں تشویش موجود ہے۔

‘‘یہ بات پہلے ہی واضح ہو چکی ہے کہ اس زمانے میں کشیدگی عروج پر ہو گی۔ ہم نے جس کسی سے بھی بات کی انھوں نے تشویش کا اظہار کیا، بلکہ بعض اوقات انہیں ڈر تھا کہ نہ معلوم کیا ہو جائے۔’’

آج کل افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً 66,000 ہے ۔ اگلے سال کے شروع تک، توقع ہے کہ یہ تعداد تقریباً نصف رہ جائے گی ۔

ابھی تک اس بارے میں حتمی فیصلے نہیں کیے گئے ہیں کہ جب 2014 کے آخر تک بیشتر فوجیں افغانستان سے جا چکی ہوں گی تو بقیہ فورس کا سائز کیا ہو گا۔
XS
SM
MD
LG