رسائی کے لنکس

افغان عورتوں کے حقوق تاحال غیر محفوظ


برطانوی تنظیم 'ایکشن ایڈ' کی جانب سے کیے جانے والے ایک حالیہ جائزے کے نتائج کے مطابق افغان خواتین کی اکثریت طالبان کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے

طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد گزشتہ ایک عشرے کے دوران میں افغان خواتین نے اپنی بیٹیوں کو حصولِ تعلیم کے لیے اسکول بھجوانے، ملازمتوں کا حق اور افغان حکومت میں نمائندگی حاصل کرنے کے لیے ایک طویل جنگ لڑی ہے۔

لیکن جیسے جیسے افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کی 2014ء کی طے شدہ ڈیڈلائن قریب آرہی ہے کئی خواتین سماجی کارکن ان خدشات کا اظہار کر رہی ہیں کہ افغان حکومت شدت پسند مزاحمت کاروں کے ساتھ امن کی پینگیں بڑھانے کے لیے حقوقِ نسواں داؤ پر لگادے گی۔

افغان صدر حامد کرزئی اور امریکی حکومتی عہدیداران ان امیدوں کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ طالبان افغانستان میں گزشتہ 10 برس سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے مذاکراتی عمل میں شریک ہوجائیں گے۔

یہ وہی طالبان ہیں جو 1990ء کے عشرے میں افغانستان کے اقتدار کے مالک تھے اور ان کی حکومت میں عورتوں کو ملازمت کرنے، تعلیم پانے اور محرم مرد کے بغیر گھر سے قدم باہر نکالنے کی اجازت نہیں تھی۔

طالبان کی اس سخت گیر حکومت کے خاتمے کے 10 برس بعد افغان صدر حامد کرزئی نے گزشتہ روز ملک کی بااثر 'مجلسِ علما' کی جانب سے مرتب کردہ ایک ایسے "ضابطہ اخلاق" کی منظوری دی ہے جس میں مخصوص حالات میں شوہروں کو اپنی بیویوں کی پٹائی کرنے اور معاشرے میں عورتوں اور مردوں کے گھلنے ملنے کی حوصلہ شکنی کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔

گوکہ اس دستاویز کو کوئی قانونی تحفظ حاصل نہیں لیکن صدر کرزئی کا کہنا ہے کہ یہ قواعد اسلام کی ان اقدار کے عکاس ہیں جن پر ملک کی بیشتر آبادی کاربند ہے۔

اس صورتِ حال کے پیشِ نظر 'آکسفام' اور 'ایکشن ایڈ' سمیت کئی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے یہ خدشات درست نظر آتے ہیں کہ افغان خواتین کے حقوق کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔

برطانوی تنظیم 'ایکشن ایڈ' کی جانب سے کیے جانے والے ایک حالیہ جائزے کے نتائج کے مطابق افغان خواتین کی اکثریت طالبان کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے حوالے سے تشویش کا شکار ہے۔

جائزے میں جن ایک ہزار خواتین کی رائے لی گئی ان کی ایک تہائی تعداد کا کہنا تھا کہ غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے باعث افغانستان کی صورتِ حال مزید دگرگوں ہوجائے گی۔

ایک غیر سرکاری افغان تنظیم 'افغانستان ہیومن رائٹس اینڈ ڈیمو کریسی آرگنائزیشن' نے گزشتہ روز "افغان خواتین: طالبان کے بعد" کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند تنظیموں کے ساتھ غیر شفاف طریقے سے سیاسی بات چیت کا عمل، مذہبی طور پر قدامت پسند حلقوں کا زور پکڑنا، افغان سول سوسائٹی کی تقسیم اور خود افغان عورتوں کی کمزوریوں کے سبب اس بات کا خدشہ ہے کہ تاریخ ایک بار پھر دہرائی جائے اور لاکھوں افغان خواتین کے لیے گزرا وقت پھر لوٹ آئے۔

XS
SM
MD
LG