رسائی کے لنکس

کیا افغانستان کے پارلیمانی انتخابات شفاف ہوں گے؟



افغانستان سے جہاں 2009 ءکے صدارتی انتخابات کی شفافیت پر اٹھنے والے سوالات اور پھر دھاندلی کے شواہد سامنے آنے کے بعد وہاں شفاف جمہوری نظام سے متعلق امیدوں کو ایک دھچکا لگاہے۔ اس سال مئی میں افغانستان میں پارلیمنٹ کے انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ کیا موجودہ صورتِ حال میں یہ انتخابات ممکن ہیں اور کیا2009 کے صدارتی انتخاب کی غلطیوں سے بچا جاسکتا ہے؟

سابق وزیرِ خارجہ عبدالله عبدالله کی طرف سے دوسرے مرحلے کا بائیکاٹ کیے جانے کے بعد ماہرین کا کہنا تھا کہ صدر کرزئی ملک میں کرپشن اور منشیات کےخاتمے کے لیے پر عظم طریقے سے کام کر کے افغان باشندوں اور عالمی برادری کی امیدوں کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔

مئیء 2010 میں افغان باشندے ڈسٹرکٹ اور پارلمانی نمائندوں کا انتخاب کریں گے۔تجزیہ کاروں کےمطابق افغانستان میں خوشحالی اور ترقیاتی پروگراموں کا انحصار شفاف انتخابی عمل پر ہو گا۔

انتخابی شکایات سے متعلق کمشن کے عہدے دار گرانٹ کپن کہتے ہیں کہ 2009 ءمیں جو ہوا وہ بہت اچھا نہ تھا،مگر انتخابات میں دھاندلی کو ختم کرنے کے لیے عالمی برادری مل کر بہت کچھ کر سکتی ہے اور افغانستان میں بھی شفاف انتخابات کی خواہش موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ یہاں مختلف قسم کے مسائل ہیں۔ امیدواروں کو یہ پتا ہونا چاہیے کہ ایک منتخب نمائندے کا کردار اور ذمہ داری کیا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ اور شاید وہاں کے لوگوں کے لیے انتخاب لڑنے وجہ ایسی نہیں ہے جو ہم دیگر ممالک میں دیکھتے ہیں یعنی وہ اپنا سوشل سٹیٹس بڑھانے کے لیے انتخاب لڑتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ لوگوں کو یہ بتانے کے لیے بہت کچھ کیے جانے کی ضرورت ہے کہ ایک منتخب نمائندہ ہونے یا کسی علاقے کے لوگوں کی نمائندگی کرنے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔

ECC کے ممبران کا کہنا ہے کہ 2010 ءکے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے ضروری ہے کہ افغان عوام کا اعتماد جیتا جائے اور انہیں یہ باور کرایا جائے کہ افغانستان کی ترقی ملک میں سیاسی نظام کی بقا سے وابستہ ہے۔ یہ انتخابات کرزئی حکومت کی زیرِ نگرا نی ہونے ہیں جس پر 2009 ءمیں الیکٹورل کمپلینٹس کمشن کی طرف سے دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے۔ مگر ماہرین کہتے ہیں کہ انتخابات میں افغانوں کی شمولیت ہی ان کے شفاف ہونے کا ثبوت دے گی مگر یونائٹد سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف پیس کے سکاٹ وارڈن کہتے ہیں کہ 2009 ءکے انتخابات میں جو کوتاہیاں ہوئیں ان کو دوہرایا نہیں جانا چاہیے۔

سکاٹ وارڈن کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ پہلے تو ایمانداری سے یہ اندازہ لگایا جانا چاہیے کہ 2009 ءکی ووٹنگ میں کیا ہوا۔ ECC بہت سے فراڈ کو سامنے لے کر آیا۔ اور جہاں جہاں ہمیں فراڈ کے ثبوت ملے ہم نے انڈپینڈنٹ الیکشن کمشن کو اس سے آگاہ کیا۔ میرا خیال ہے کہ انہیں اسے دوبارہ دیکھنا چاہیے اور ان علاقوں میں جو لوگ ذمہ دار تھے انہیں تبدیل کیا جائے۔ جہاں انتظام صحیح نہیں تھا اسے ٹھیک کیا جائے اور لوگوں کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے کہ کیا تبدیلی لائی گئی ہے تاکہ 2010ء کا انتخابی عمل بہتر کیا جا سکے۔

2010 ءکے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے تجزیہ کاروں کے مطابق 2009 ءکے مقابلے میں اس بار زیادہ بڑی تعداد میں انٹرنیشنل سٹاف کو افغانستان بھیجا جائے اور وہ کہتے ہیں کہ ہر کوئی 2009 ءکی دھاندلی کو بھول کر یہ تسلیم کر لے کہ صدر کرزئی ملک کے منتخب صدر ہیں اور ہم سب کو مل کر افغانستان کی بہتری کے لیے آگے بڑھنا ہے۔

XS
SM
MD
LG