رسائی کے لنکس

افغان حکومت اور طالبان میں جلد براہ راست مذاکرات کی کوششوں پر اتفاق


اجلاس میں کہا گیا کہ مفاہمتی عمل کا نتیجہ افغانستان میں ایک سیاسی حل، تشدد کا خاتمہ اور دیرپا امن ہونا چاہیے۔

افغانستان میں امن اور مفاہمتی عمل کی بحالی کی راہ تلاش کرنے کے لیے قائم چار ملکی گروپ نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات رواں ماہ کے اواخر میں کروانے کی کوششوں پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی گروپ کا تیسرا اجلاس ہفتہ کو اسلام آباد میں ہوا جس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں بتایا گیا کہ شرکا نے جنگ سے تباہ حال ملک میں مصالحتی عمل کے لائحہ عمل پر اتفاق کیا ہے۔

اجلاس میں کہا گیا کہ مفاہمتی عمل کا نتیجہ افغانستان میں ایک سیاسی حل، تشدد کا خاتمہ اور دیرپاامن ہونا چاہیے۔

چار فریقی گروپ نے تمام افغان طالبان پر زور دیا کہ وہ مذاکرات کے عمل میں شامل ہوں۔

اجلاس میں پاکستانی وفد کی سربراہی سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے کی جب کہ افغان وفد کی قیادت نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی کر رہے تھے۔ امریکہ کا وفد نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان رچرڈ اولسن جب کہ چین کا وفد افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی ڈینگ شی جن کی سربراہی میں شریک ہوا۔

شرکا نے افغانستان میں امن و مصالحت میں پیش رفت کے لیے گروپ کے اجلاس جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا اور اس سلسلے میں چوتھا اجلاس 23 فروری کو کابل میں ہوگا۔

پاکستان نے گزشتہ جولائی میں افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے مابین پہلی براہ راست ملاقات کی میزبانی کی تھی لیکن یہ سلسلہ ایک ہی دور کے بعد بوجوہ تعطل کا شکار ہو گیا جس میں طالبان کے آپسی اختلافات اور افغانستان میں ان کی پرتشدد کارروائیوں میں اضافے سے مزید تاخیر ہوتی چلی گئی۔

گزشتہ دسمبر میں اس عمل کو بحال کرنے کے لیے چار فریقی گروپ تشکیل دیا گیا تھا جو اب تک تین اجلاس کر چکا ہے۔

ہفتہ کی صبح اجلاس سے اپنے افتتاحی خطاب میں پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ مفاہمتی عمل افغانستان میں تشدد میں کمی کا سبب بنے گا اور اس کے لیے سب کو تمام کوششیں اور توانائیاں صرف کرنا ہوں گی۔

انھوں نے کہا کہ کئی دہائیوں سے افغان عوام ایک نا ختم ہونے والے تشدد کے سلسلے میں گھرے ہوئے ہیں اور انھیں دیرپا امن و استحکام کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں چار فریقی گروپ کا کردار بہت اہم ہے۔

"ہمارا ماننا ہے کہ اس مرحلے پر ہماری مشترکہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اعتماد سازی کے معاون اقدام اور عسکریت پسند گروپوں کو سیاسی دھارے میں شامل کرنے کی پیشکش کے ذریعے طالبان کے زیادہ سے زیادہ گروپوں کو مذاکرات میں شامل کیا جائے۔"

جنگ سے تباہ حال ملک میں طالبان کی حالیہ کارروائیوں میں تیزی اور یہاں شدت پسند گروپ داعش کی موجودگی افغانستان کے اتحادی ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے لہذا اس ساری صورتحال میں افغان مصالحتی عمل کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

دریں اثناء پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی رچرڈ اولسن نے راولپنڈی میں بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ہفتہ کو ملاقات کی۔

فوج کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ملاقات میں خطے میں سلامتی اور خصوصاً افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

XS
SM
MD
LG