رسائی کے لنکس

افغانستان: حکمت یار کی جماعت حزبِ اسلامی مذاکرات پر آمادہ


گلبدین حکمت یار (فائل فوٹو)
گلبدین حکمت یار (فائل فوٹو)

اتوار کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حکمت یار کے ترجمان، جنہوں نے اپنا نام انجینیئر ہارون زرغون کے طور پر ظاہر کیا، نے بتایا کہ بات چیت میں شرکت کا فیصلہ افغانستان کے مفاد میں کیا گیا۔

افغانستان میں ایک روپوش کمانڈر اور سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار کی جماعت حزب اسلامی نے افغان حکومت سے امن مذاکرات میں شریک ہونے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔

افغان صدر نے ملک کے تمام گروپوں سے مصالحتی عمل میں شریک ہونے کا کہا تھا لیکن طالبان نے اپنی شرائط کے منظوری تک بات چیت میں نہ بیٹھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

اتوار کو وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حکمت یار کے ترجمان، جنہوں نے اپنا نام انجینیئر ہارون زرغون کے طور پر ظاہر کیا، نے بتایا کہ بات چیت میں شرکت کا فیصلہ افغانستان کے مفاد میں کیا گیا۔

’’حزب اسلامی نے بار بار کہا تھا کہ ہم افغانوں کو اجازت دے دیں کے وہ آپس میں بیٹھ کر اپنی مشکلات خود حل کریں ہم بین الاقوامی مذاکرات کے طرف دار ہیں اس لیے تیار بھی ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں حزب اسلامی کے وفد کی سربراہی گروپ کے سیاسی امور کے نگران ڈاکٹر غیر باہیر کریں گے اور اس وفد میں گروپ کے کئی اہم رہنما بھی شامل ہوں گے۔

تاہم ہارون زرغون کے بقول تاحال مذاکراتی عمل کے آغآز کے بارے میں ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں۔

حزب اسلامی بھی افغانستان میں اپنے طور پر مسلح کارروائیاں کرتی رہی ہے اور طالبان کے ساتھ بھی اس کی مخالفت چلتی آرہی ہے۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار محمود شاہ کہتے ہیں کہ حزب اسلامی کی طرف سے مذاکراتی عمل میں شرکت خوش آئند ضرور ہے لیکن اس سے امن عمل میں وہ کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں کرتے۔

’’حکمت یار کی حمایت بھی محدود ہے افغانستان میں اور میرے خیال میں طالبان کے ساتھ اس کے کوئی خاص تعلقات بھی ٹھیک نہیں ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ وہ طالبان کی وجہ سے دائیں بائیں چھپتے رہے ہیں تو ٹھیک ہے وہ بات کرتے ہیں تو افغانستان کی حکومت کو ایک حمایتی مل جاتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس کا کوئی بہت زیادہ فرق پڑے گا افغانستان کے جو حالات ہیں اس کے اوپر۔‘‘

حزب اسلامی اس سے قبل بھی افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں دو بار مذاکراتی عمل میں شریک رہ چکی ہے لیکن بات چیت کے یہ دور بے نتیجہ ثابت ہوئے تھے۔

افغان مصالحتی عمل کی بحالی کے لیے پاکستان، افغانستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی گروپ نے گزشہ ماہ کے اواخر میں ہونے والے اپنے چوتھے اجلاس کے بعد یہ توقع ظاہر کی تھی کہ یہ سلسلہ مارچ کے اوائل میں شروع ہو سکتا ہے۔ لیکن تاحال یہ عمل فوری طور پر بحال ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

XS
SM
MD
LG