رسائی کے لنکس

پاکستان سے رہا ہونے والے قیدیوں سے رابطہ نہیں ہوا: افغان امن کونسل


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نے کم از کم ایک مرتبہ ان سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا۔

افغانستان میں طالبان سے مصالحت کے لیے قائم اعلیٰ امن کونسل میں شامل افراد نے دعویٰ کیا ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان سے رہا کیے جانے والے 40 سے زائد طالبان قیدیوں میں سے کسی ایک سے بھی اُن کی ملاقات نہیں ہو سکی ہے۔

خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ نے کونسل کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے منسوب خبر میں کہا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ تمام قیدیوں کو افغان حکام کے حوالے کیا جائے۔

’’اعلیٰ امن کونسل کے ارکان کو ان (قیدیوں) سے ملاقات اور بات چیت کا موقع دیا جائے تاکہ انھیں بتایا جائے کہ دیکھو ہم تمہاری رہائی کے لیے مطالبہ کرتے رہے ہیں اور اب تم رہا کر دیے گئے ہو۔‘‘

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امن و استحکام کے لیے ’’بہتر ہو گا کہ ہمارے درمیان تعاون ہو۔‘‘

پاکستان نے کابل کی درخواست پر 2012ء سے اپنے ہاں قید افغان طالبان قیدیوں کو مرحلہ وار رہا کرنا شروع کیا تھا۔ افغانستان ان قیدیوں کو ملک میں عسکریت پسندوں سے امن بات چیت کے عمل میں معاونت کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔

1996ء سے 2001ء تک افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان کی طرف سے ملک میں ایک بار پھر پر تشدد کارروائیوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے اور ایک ایسے وقت جب پانچ اپریل کو صدارتی انتخاب اور رواں سال کے اواخر میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہونے جا رہا ہے ان کی طرف سے ملک پر دوبارہ قبضے کے خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔

رواں ہفتے ہی طالبان کی طرف سے یہ بیان سامنے آ چکا ہے کہ وہ امریکہ افغان انتخابات پر اثر انداز ہو رہا ہے اور جو کوئی بھی انتخابات میں حصہ لے گا اس پر حملے کیے جائیں گے۔

افغانستان چاہتا ہے کہ پاکستان اپنے ہاں قید طالبان قیدیوں کی رہائی کے وقت امن کونسل کا ایک وفد بھی وہاں موجود ہو لیکن پاکستان کی طرف سے قیدیوں کی رہائی کے بعد صرف افغان حکام کو اس عمل کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ کونسل نے رہائی پانے والے 46 قیدیوں میں سے 15 سے غیر رسمی طور پر رابطہ کیا لیکن ان سے براہ راست کوئی ملاقات نہیں ہو سکی۔ ان کے بقول کونسل کو کچھ معلوم نہیں کہ یہ کہاں ہیں لیکن باور یہی کیا جاتا ہے کہ یہ سب پاکستان میں ہی ہیں۔

افغانستان کی طرف سے ماضی میں بھی پاکستان پر افغان امن عمل میں غیر سنجیدگی کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

لیکن پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے ایسے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد نے کم ازکم ایک مرتبہ ان سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا۔ ’’ان (قیدیوں) میں سے کچھ ملاقات پر تیار نہیں تھے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ’’ہم اب بھی اپنے موقف پر قائم ہیں کہ ہم نے افغانستان اور اعلیٰ امن کونسل کی درخواست پر انھیں رہا کیا۔ ہم نے ان کی ملاقات کا انتظام بھی کیا اور ہم یہ کرتے رہیں گے۔۔۔ پاکستان کے خلوص پر شکوک وشبہات مددگار نہیں ہوں گے۔‘‘

تسنیم اسلم نے کہا کہ گزشتہ سال نومبر میں امن کونسل اور ملا عبدالغنی برادر کے درمیان ملاقات کا بھی انتظام کیا گیا تھا۔

غنی برادر افغان طالبان کے امیر ملا عمر کا سابق نائب تھا اور اُنھیں سات سال قبل کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستان نے گزشتہ ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ وہ ملا برادر کو رہا کر رہا ہے لیکن افغان اعلیٰ امن کونسل کا کہنا ہے کہ وہ اب بھی پاکستان میں گھر پر نظر بند ہے اور اس کا نام رہا کیے جانے والے قیدیوں کی فہرست میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔

کونسل کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ قیدیوں کی اب تک کی رہائی سے طالبان کے ساتھ ’’اعتماد سازی‘‘ میں مدد ملی ہے۔

رہائی پانے والوں میں سے کسی کی بھی امن عمل میں شمولیت کے بارے پوچھے گئے سوال پر اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’’نہیں، انھیں ہمارے حوالے نہیں کیا گیا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہیں۔‘‘
XS
SM
MD
LG