رسائی کے لنکس

افغانستان میں فوجی تربیت کاروں کی کمی کو پورا کرنے پر زور


افغانستان میں فوجی تربیت کاروں کی کمی کو پورا کرنے پر زور
افغانستان میں فوجی تربیت کاروں کی کمی کو پورا کرنے پر زور

امریکی بحریہ کے ایڈمرل جو ساری دنیا میں نیٹوکی فوجوں کے کمانڈر ہیں،نے کہا ہے کہ وہ خود اور نیٹو کے سیکرٹری جنرل ہر ممبر پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ افغانستان میں فوج کو تربیت دینے والے عملے کی کمی کو پورا کریں۔انھوں نےیہ بات امریکی سینٹ کی سماعت کے دوران کہی جس میں دونوں پارٹیوں کے سینیئر ارکان نے اس کمی کے لیے نیٹو کے اتحادی ملکوں پر تنقید کی۔

ایڈمرل James Stavridis نے سینٹ کی مسلح افواج کی کمیٹی کو بتایا کہ افغانستان کی فوج اور پولیس فورسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ان کی تربیت کے لیے نیٹو کی کمان کو 1,278 تربیت کاروں کی ضرورت ہے۔ لیکن اب تک اسے صرف 541 دستیاب ہوئے ہیں۔ اس طرح تربیت دینے والے عملے میں 737 افراد کی کمی ہے ۔

انھوں نے کہا’’یہ بات بالکل صحیح ہے کہ نیٹو مطلوبہ تعداد میں تربیت دینے والا انتہائی ضروری عملہ فراہم نہیں کر سکی ہے ۔ہم نے اس سلسلے میں مزید اقدامات کیے ہیں۔ ہم نے باری باری ہر ملک سے الگ الگ رابطہ کیا ہے اور ان سے کہا ہے کہ وہ کس قسم کا تربیت دینے والا عملہ فراہم کر سکتے ہیں اور اس کمی کو پورا کر سکتے ہیں۔‘‘

تربیت دینے والے عملے کی کمی ایسے وقت میں ہوئی ہے جب افغان فوج میں بھرتی ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکومتِ افغانستان نے گذشتہ سال کے آخر میں فوج کی تنخواہ میں بھاری اضافہ کر دیا ۔

کمیٹی کے چیئرمین ، ڈیموکریٹ کارل لیون نے کہا کہ افغانستان میں ٹریننگ کمانڈر نے انہیں بتایا کہ بعض افغان رنگروٹ فوج میں فوری طور پر اس لیے داخل نہیں ہو سکتے کیوں کہ انہیں تربیت دینے کے لیے عملہ موجود نہیں ہے ۔انھوں نے کہا’’یہ بات بالکل ناقابل قبول ہے۔میرے لیے اس پر یقین کرنا مشکل ہے کہ نیٹو اتحادی ملک اس قسم کا کام بھی نہیں کر سکتے جسے خطرناک کام نہیں کہا جا سکتا ۔ ویسے تو ہر کام میں خطرہ ہوتا ہے لیکن جنگی کارروائیوں کے مقابلے میں اس کام میں خطرہ بہت کم ہے۔‘‘

ایڈمرل Stavridis نے کہا کہ وہ خود اور نیٹو کے سکریٹری جنرل Anders Fogh Rasmussen اس مسئلے پر تندہی سے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں’’جب تک ہم یہ کام مکمل نہ کر لیں، ہم اس پر جانفشانی سے لگے رہیں گےاور جیسا کہ میں نے سینیٹرلیون سے کہا ہے یہ میری ترجیحات کی فہرست میں سب سے اوپر رہے گا۔‘‘


ایڈمرل Stavridis نے کہا کہ مجموعی طور سے نیٹو کا کام پروگرام کے مطابق ہو رہا ہے۔ رکن ممالک کو افغانستان جانے والے 30,000 مزید امریکی فوجیوں کے ساتھ مل کر لڑنے اور افغان فوجیوں کو تربیت دینے کے لیے جو مزید دس ہزار فوجی بھیجنے تھے، ان میں سے 9,500 کی فراہمی کے پکے وعدے کیے جا چکے ہیں ۔لیکن سینٹ کی کمیٹی کے سینیئر ریپبلیکن رُکن، سابق صدارتی امیدوار جان میکین نے ایڈمرل Stavridis کے اعداد و شمار کے صحیح ہونے کے بارے میں شبہے کا اظہار کیا کیوں کہ 2,000 ڈچ فوجی اگست میں واپس چلے جائیں گے۔

انھوں نے کہا’’تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنا ہدف حاصل نہیں کر رہے ہیں، کہنے کی حد تک تو یہ بات صحیح ہے لیکن اگر 2,000 ڈچ سپاہی ، جو بہت اچھے لڑنے والے ہیں، واپس جانے والے ہیں، تو پھر نیٹو کے ملکوں کے اضافی فوجیوں کی تعداد 9500 نہیں بلکہ 7500 کے لگ بھگ ہوگی۔‘‘

سینیٹرمیکین نے کہا کہ نیٹو کے بعض ملکوں کی طرف سے کیے ہوئے وعدوں کی توثیق ابھی باقی ہے۔
ایڈمرل Stavridis نے کہا کہ افغانستان میں نیٹو کےتربیت کاروں کی ضرورت جلد ختم ہونے کا امکان نہیں ہے کیوں کہ ہدف یہ ہے کہ افغان فوج کی تعداد تین لاکھ اور پولیس فورس کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچا دی جائے۔

انھوں نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ اگلے کئی مہینوں تک فوج میں کافی لوگ بھرتی ہوتے رہیں گے ۔ ایڈمرل نے کہا کہ اب زیادہ توجہ اس بات پر دی جارہی ہے کہ فوج میں بھرتی ہونے والے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ جب ان کی ابتدائی مدت ختم ہو جائے تو اس کے بعد بھی وہ فوج میں ملازمت جاری رکھیں۔

صدر باراک اوباما نے کہا ہے کہ ان کا ہدف یہ ہے کہ اگلے سال جولائی میں سکیورٹی کی ذمہ داریاں افغانوں کو منتقل کرنے کا کام شروع کر دیا جائے ۔ اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے افغان فورسز کو تیار کرنا انتہائی ضروری ہے ۔

سماعت کے دوران ایڈمرل Stavridis نے اعتراف کیا کہ جن 42 ملکوں نے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجی ہیں ان میں سے 20 ملکوں نے اب بھی اپنے فوجیوں کی سرگرمیوں پر بعض پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، اگرچہ امریکہ برسوں سے ان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ یہ پابندیاں ختم کر دیں۔ Stavridis نے کہا کہ بعض شرائط بہت سخت ہیں اور وہ ان ملکوں پر مسلسل دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ان پابندیوں کو کم کردیں یا ختم کر دیں۔



XS
SM
MD
LG