رسائی کے لنکس

القاعدہ کا قائم مقام سربراہ ڈینیئل پرل کے قتل میں ملوث تھا، رپورٹ


القاعدہ کا قائم مقام سربراہ ڈینیئل پرل کے قتل میں ملوث تھا، رپورٹ
القاعدہ کا قائم مقام سربراہ ڈینیئل پرل کے قتل میں ملوث تھا، رپورٹ

امریکی حکام کے مطابق مصری نژاد سیف العدل کا شمار القاعدہ کے نمایاں ترین عسکری کمانڈروں میں ہوتاہے اور اسے القاعدہ کی جانب سے 1998ء میں کینیا اور تنزانیہ میں واقع امریکی سفارتخانوں پر کیے گئے بم حملوں کا مبینہ منصوبہ ساز بھی قرار دیا جاتا ہے۔امریکی تفتیش کاروں کے مطابق سیف العدل 90 کی دہائی میں سوڈان اور افغانستان میں القاعدہ کے عسکری تربیت کے مراکز کے قیام میں بھی پیش پیش تھا۔

امریکی تفتیش کاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی کارروائیوں کی نگرانی کے لیے مقرر کیے جانے والا تنظیم کا قائم مقام سربراہ مصری شدت پسند سیف العدل امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے 2002ء میں پاکستان میں ہونے والے قتل میں ملوث ہے۔

ڈینیئل پرل
ڈینیئل پرل

امریکی اخبار ’وال اسٹریٹ جرنل‘ کے نمائندے ڈینیئل پرل 11 ستمبر 2001ء کو نیویارک اور واشنگٹن پر حملوں کے تناظر میں مسلم انتہاپسندی کے موضوع پر تحقیق کی غرض سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں مقیم تھے جہاں اُنھیں جنوری 2002ء میں اغواء کے بعد قتل کردیا گیا۔

ڈینیئل پرل کے نام پر قائم کیے گئے تحقیقی ادارے ’پرل پراجیکٹ‘ سے وابستہ تفتیش کاروں کے مطابق سیف العدل نے 11 ستمبر 2001ء کے دہشت گرد حملوں کے مبینہ منصوبہ ساز خالد شیخ محمد کے ساتھ امریکی صحافی کے اغواء کے معاملے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

رواں سال جنوری میں جاری کی گئی اپنی رپورٹ میں ’پرل پراجیکٹ‘ کے تفتیش کاروں کا کہنا تھا کہ خالد شیخ محمد نے دورانِ حراست ایف بی آئی حکام کو بتایا کہ القاعدہ کے مصر سے تعلق رکھنے والے ایک اہم رہنما سیف العدل نے اسے ڈینیئل پرل کے اغواء کے منصوبے میں شامل ہو کر اس منصوبے کو القاعدہ کی کارروائی کے طور پر سرانجام دینے کی ہدایت کی تھی۔

واضح رہے کہ امریکی یونیورسٹی جارج ٹاؤن سے منسلک شعبہ صحافت کے اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے قائم کردہ ’پرل پراجیکٹ‘ کا مقصد امریکی صحافی کے اغواء اور قتل سے متعلق حقائق منظر عام پر لانا ہے۔

تحقیق کے مطابق ڈینیئل پرل کو پاکستان کے ایک مقامی شدت پسند گروہ نے اغواء کرنے کے بعد القاعدہ کے حوالے کردیا تھا۔ رپورٹ میں امریکی تفتیش کاروں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ سیف العدل نے ڈینیئل پرل کے اغواء کی خبر ملنے کے بعد خالد شیخ محمد سے رابطہ کرکے امریکی صحافی کو القاعدہ کی تحویل میں لینے کا کام سونپا تھا۔

خالد شیخ محمد
خالد شیخ محمد

خالد شیخ محمد نے دورانِ تفتیش ایف بی آئی حکام کو بتایا تھا کہ سیف العدل ڈینیئل پرل کے اغواء کو القاعدہ کے لیے ایک موقع سمجھتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھانے کا خواہاں تھا۔

خالد شیخ محمد کو 2003ء میں پاکستانی سکیورٹی اداروں کے ہاتھوں راولپنڈی سے گرفتار ی کے بعد گوانتانامو میں واقع امریکی قید خانے منتقل کردیا گیا تھا جہاں بعد ازاں دورانِ تفتیش اس نے ڈینیئل پرل کاسر قلم کرکے قتل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

خالد شیخ محمد نے تفتیش کاروں کو بتایا تھا کہ اسے العدل کی جانب سے ہدایات ملنے سے پیشتر ڈینیئل پرل کے اغواء کے متعلق علم نہیں تھا۔ اُس کا یہ بھی کہنا تھا کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے ڈینیئل پرل کے بہیمانہ قتل پر خاصی برہمی کا اظہار کیا تھا۔

گوانتانامو قید خانے کے لیے استغاثہ کے سابق سربراہ نے بعد ازاں ’پرل پراجیکٹ‘ کے تفتیش کاروں کو بتا یا تھا کہ امریکی جیل میں موجود ایک انتہائی اہم قیدی نے اعتراف کیا تھا کہ اسامہ بن لادن نے خالد شیخ محمد کے ہاتھوں ڈینیئل پرل کے قتل پر سخت ناراضگی ظاہر کی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس کارروائی سے ان کی تنظیم عالمی برادری کی غیر ضروری توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔

واضح رہے کہ شدت پسندوں کی جانب سے ڈینیئل پرل کا سر تن سے جدا کرنے کی ویڈیو بنائی گئی تھی جسے بعد ازاں جاری کردیا گیا تھا۔

ایک پاکستانی عدالت کی جانب سے 2002ء میں برطانوی نژاد شدت پسند عمر سعید شیخ کو ڈینیئل پرل کے قتل میں ملوث ہونے کے جرم میں موت کی سزا سنائی تھی۔ عمر سعید شیخ اور مقدمے میں عمر قید کی سزا پانے والے تین دیگر شریک ملزمان نے عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کررکھی ہے جس کا فیصلہ آنا باقی ہے۔

سیف العدل
سیف العدل

امریکی حکام کے مطابق مصری نژاد سیف العدل کا شمار القاعدہ کے نمایاں ترین عسکری کمانڈروں میں ہوتاہے اور اسے القاعدہ کی جانب سے 1998ء میں کینیا اور تنزانیہ میں واقع امریکی سفارتخانوں پر کیے گئے بم حملوں کا مبینہ منصوبہ ساز بھی قرار دیا جاتا ہے۔

امریکی تفتیش کاروں کے مطابق سیف العدل 90 کی دہائی میں سوڈان اور افغانستان میں القاعدہ کے عسکری تربیت کے مراکز کے قیام میں بھی پیش پیش تھا۔

XS
SM
MD
LG