رسائی کے لنکس

امریکہ میں لائبریریاں مقبولیت کی بلند ترین سطح پر


امریکہ میں لائبریریاں مقبولیت کی بلند ترین سطح پر
امریکہ میں لائبریریاں مقبولیت کی بلند ترین سطح پر

لائبریریاں کسی بھی معاشرے کی تربیت اور ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں اور ان کی موجودگی اور عدم موجودگی کسی بھی آبادی کے تہذیبی رجحانات اور ترجیحات کی عکاسی کرتی ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان میں لائبریریاں نہ تو کبھی کسی حکومت کی ترجیحات میں شامل رہیں اور نہ عوامی حلقے ہی کبھی ان کی اہمیت کا اندازہ کرپائے۔ سترہ کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں عالمی معیار کی کسی لائبریری کی موجودگی تو کجا ، مقامی افراد کی طلب پوراکرنے کی صلاحیت کا حامل کوئی کتب خانہ بھی دستیاب نہیں۔ اس کے برعکس ملک کے بیشتر شہروں میں موجود پبلک لائبریریاں حکومتی اور عوامی عدم توجہی کا شکار ہیں۔

رواں ماہ پاکستان کے لائبریریینز کی نمائندہ تنظیم "پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن" نے امریکی سفارت خانے کے تعاون سے اسلام آباد میں "اکیسویں صدی میں لائبریریوں کا کردار " کے موضوع پر ایک دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا تاکہ پاکستانی لائبریریوں کو درپیش مشکلات اور مسائل کا حل تلاش کرتے ہوئے مستقبل کا لائحہ عمل تیار کیا جاسکے۔

کانفرنس میں امریکی لائبریرینز کی تنظیم "امریکی لائبریری ایسوسی ایشن" کے نمائندہ اور تنظیم کے زیرِ اہتمام شائع ہونے والے جریدے "امریکن لائبریریز" کے مدیر لیونارڈ کینیفل نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ کانفرنس میں شرکت کے علاوہ کینیفل نے اپنے قیام کے دوران اسلام آباد اور کراچی کی مختلف پبلک لائبریریوں کے دورے کے علاوہ لائبریرینز کے وفود سے ملاقاتیں بھی کیں اور انہیں امریکہ میں لائبریریوں کے نظام و بندوبست سے آگاہ کیا۔

اپنے دورے کے اختتام پر وائس آف امریکہ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں لیونارڈ کینیفل نے جہاں اپنے دورہ پاکستان کے مشاہدات بیان کیے، وہیں انہوں نے پاکستانی لائبریریز کی حالتِ زار پر افسوس کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی بہتری کیلیے امریکی تجربات سے استفادے کی ضرورت پر زور بھی دیا۔

گزشتہ 35 سال سے مختلف امریکی لائبریریوں کے انتظام و انصرام کی ذمہ داریوں سے منسلک کینیفل کہتے ہیں کہ زمانے کی بدلتی ہوئی اقدار کے سبب اب لائبریریاں محض کتابوں کے گودام نہیں رہیں بلکہ متمدن معاشروں میں ان کا کردار کہیں زیادہ اہم، کثیر الجہتی اور متحرک ہوگیا ہے۔

"بیشتر امریکیوں کے نزدیک لائبریری اب ایک ایسی جگہ بن چکی ہے جہاں وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک بہتر اور معلومات سے بھرپور تفریح بغیر کوئی قیمت ادا کیے حاصل کرسکتے ہیں۔ وہاں ان کے بچوں کیلیے نت نئی معلوماتی کتابوں کے ساتھ ساتھ ایسے پلے ایریاز موجود ہیں جہاں وہ کھیل کھیل میں علم حاصل کرتے ہیں، طلبہ کیلیے گروپ اور انفرادی مطالعے کے مواقع ، انٹر نیٹ اور ڈیجیٹل میڈیا کے جدید ذرائع تک مفت اور بآسانی فراہمی اور قابلِ اعتماد معلومات تک بروقت اور فوری رسائی ، لائبریری اب ان سب سہولیات کی فراہمی کا مرکز ہیں"۔

بقول کینیفل "درحقیقت امریکی معاشرے میں لائبریریاں اب اپنے روایتی کردار سے ہٹ کر کمیونٹی سینٹرز کا روپ دھار چکی ہیں۔ اور اس تبدیلی کا سہرا امریکن لائبریری ایسوسی ایشن اور لائبریرینز کے سر جاتا ہے"۔

کینیفل کا کہنا ہے کہ اے ایل اے کے اقدامات کی بدولت اس وقت امریکہ میں لائبریریز سے استفادہ کرنے والے افراد کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور 63 فی صد بالغ امریکی کسی نہ کسی پبلک لائبریری کے کارڈ ہولڈر ہیں۔ ان کے دعویٰ کے مطابق عوام میں اس بھرپور پذیرائی کی بدولت امریکہ میں پبلک لائبریریز کی تعدادمعروف فاسٹ فوڈ چین "میک ڈونالڈ" کے ریستورانوں سے بڑھ گئی ہے اور اس وقت ملک بھر میں 16549 لائبریریاں موجود ہیں۔

کینفل سمجھتے ہیں کہ بدلتے حالات اور زندگی میں روز بروز آتی تبدیلیوں نے ایک لائبریرین کو درپیش چیلنجز میں اضافہ کرکے اس کی ذمہ داریاں بڑھا دی ہیں۔

"اب آپ ماضی کی طرح ایک ڈیسک کے پیچھے بیٹھ کر لائبریری نہیں چلا سکتے۔ اب آپ کو پہلے سے زیادہ توانائی اور عزم کے ساتھ ایک انتہائی سرگرم کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر آپ لوگوں سے سرد مہری سے پیش آتے ہیں تو یقین مانیے آپ اپنی لائبریری آنے والے افراد کی تعداد میں کمی کا سبب بن کر خود اپنی نوکری پر لات مار رہے ہیں"۔

کینفل کہتے ہیں کہ ایک لائبریرین کیلیے ضروری ہے کہ وہ اپنی لائبریری میں کثرت سے آنے والے افراد کی پسند، ذوق اور رجحان سے آگاہ ہو۔ اسے خوش اخلاق ہونا چاہیے۔ اور ڈیسک کے پیچھے بیٹھ کر لوگوں کا انتظار کرنے کے بجائے خود ان تک جاکر ان سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان کے مطابق ایک آئیڈیل لائبریرین کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اس کا کون سا قاری کس قسم کی کتابوں میں دلچسپی رکھتا ہے اور اسے مطالعے کیلیے کس وقت کیا تجویز کیا جانا چاہیے۔

کینیفل نے اپنے دورہ پاکستان کے دوران کئی پبلک اور پرائیوٹ لائبریریوں کے دورے کے علاوہ اسلام آباد اور کراچی میں لائبریرینز سے ملاقاتیں بھی کیں۔ تاہم جہاں وہ پاکستانیوں کے جذبے اور ٹیلنٹ سے متاثر ہوئے ہیں وہیں انہیں یہاں موجود لائبریریوں کی حالتِ زار سے سخت مایوسی ہوئی ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ مقامی لائبریرینز ہی اس صورتحال میں بہتر لا سکتے ہیں۔

" معاشرے اور حکومت سے اپنی اہمیت تسلیم کرانے کی ذمہ داری خود پاکستانی لائبریرینز پہ عائد ہوتی ہے۔ انہیں خود اس کا ادراک کرنا ہوگا کہ کوئی اور ان کے مفادات کے تحفظ کیلیے آگے نہیں بڑھے گا۔ یہ سب سے بڑھ کر خود ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے حقوق اور اپنے روزگار کی ابتر صورتحال کیلیے مل جل کر آواز اٹھائیں اور پاکستانی عوام اور اشرافیہ میں اس بات کا شعور بیدار کریں کہ یہ لائبریریاں ان کیلیے کتنی ناگزیر ہیں"۔

کینیفل کے نزدیک پاکستانی لائبریرینز کو سب سے پہلا کام خود کو منظم کرنے کا کرنا چاہیے تاکہ وہ اجتماعی حیثیت میں کوئی قابلِ ذکر کردار ادا کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس ضمن میں پاکستانیوں کی رہنمائی کیلیے انہوں نے اپنے دورے کے دوران ہونے والی ملاقاتوں اور کانفرنسوں میں امریکن لائبریرینز کے تجربات بیان کیے ہیں۔

"امریکہ میں ہماری ایسوسی ایشن کے 65 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ممبران ہیں۔ ہم ہر سال ایک "لیجلسٹو ڈے" مناتے ہیں جس میں ہم ہر شہر اور ریاست سے اپنی ایسوسی ایشن کے ممبران کو بسوں میں بھر کے واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے باہر جمع کرتے ہیں۔ وہاں ہر شہر سے آئے لائبریرینز اپنے اپنے علاقوں کے منتخب نمائندوں سے ملتے ہیں اور انہیں ان کے حلقے میں موجود لائبریریوں کو درپیش مشکلات اور مستقبل کی ضروریات سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ لائبریریوں کو درکار فنڈز اور ضروری قانون سازی کے حوالے سے اپنے مطالبات پیش کرتے ہیں"۔

کینیفل کا کہنا ہے کہ اس طرح کی "لابنگ" کیے بغیر پاکستانی لائبریرینز اپنے مفادات کا تحفظ نہیں کرسکتے۔ ان کے مطابق لائبریرینز کو مقامی بااثرشخصیات اور لائبریری آنے والے افراد کے ساتھ ساتھ مقامی حکام سے بھی مسلسل رابطے میں رہنا ہوگا تاکہ وہ اپنی اہمیت منوا سکیں۔

اس ضمن میں کینیفل شکاگو کی مثال پیش کرتے ہیں جہاں کی پبلک لائبریری کا نظام امریکہ میں سب سے بہترین تصور کیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق شکاگو لائبریری کے لائبریرین مقامی میئر سے مسلسل رابطے میں رہنے کے علاوہ ان کے قریبی مشاورتی حلقے میں شامل ہیں۔ وہ نہ صرف میئر کی زیرِ صدارت ہونے والے تمام اہم پالیسی اجلاسوں میں شریک ہوتے ہیں بلکہ انہیں میئر کے غیر اعلانیہ مشیر کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اس طرح وہ نہ صرف اپنی لائبریری کے مفاددات کا بہتر طور پر تحفظ کر رہے ہیں بلکہ انہیں کسی نئے کام کی منظوری اور درکار فنڈز کیلیے بھی زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

تاہم کینیفل یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کے حالات امریکہ سے بہت مختلف ہیں۔ لیکن ان کے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی حکام ،اور خود لائبریرینز بھی ، لائبریریوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کے "ویژن" سے عاری ہیں۔

ان کا کہناہے کہ اگر پاکستانی چاہیں تو وہ امریکی لائبریریوں میں کیے گئے تجربات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی انجمن پاکستانی لائبریرینز کو ہر قسم کی مشاورتی اور تیکنیکی مدد فراہم کرنے پہ تیار ہے اور وہ واپس پہنچ کر امریکن لائبریری ایسوسی ایشن کے عہدیداران سے پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں میں لائبریریوں کی تعمیر اور بحالی میں مدد فراہم کرنے کے حوالے سے بات کرینگے۔

ڈیجیٹل میڈیمز کی ترقی اور ای-بکس کی مقبولیت کے باوجود کینیفل لائبریریوں کی افادیت میں کمی کے خدشے سے انکاری ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک انسان میں سیکھنے کی لگن موجود رہے گی اس وقت تک لائبریریوں کی اہمیت بھی برقرار رہے گی۔

کینیفل کے پاس اپنی اس امید پرستی کی دلیل بھی اور وہ یہ کہ ان کے نزدیک دیگر تمام ڈیجیٹل میڈیمز کے مقابلے میں لائبریریز کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ یہ افراد کو کچھ بیچنا نہیں، بلکہ کچھ سکھانا چاہتی ہیں۔

"دیگر تمام میڈیمز کو تیار کرنے والے ادارے آپ کو ایک صارف سمجھتے ہوئے آپ کو اپنی پروڈکٹ فروخت کرنا چاہتے ہیں ۔ اسکے برعکس لائبریری ایک ایسا ادارہ ہے جس کا آپ سے کوئی کاروباری مفاد وابستہ نہیں اور وہ آپ کو ایک طالبِ علم سمجھتے ہوئے آپ کی علم کی پیاس بجھانے کا خواہاں ہے اور اس کے جواب میں کسی بدلے کی امید بھی نہیں رکھتا"۔

تاہم ان کا کہنا ہے کہ لائبریریز کو بدلتے حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا ہوگا اور آنے والی تبدیلیوں اور ڈیجیٹل انقلاب سے خود کو ہم آہنگ کرنا ہوگا۔

"لوگ پڑھنا چاہتے ہیں۔ اب اگر ان کا رجحان کاغذ پہ چھپی کتابوں سے ڈیجیٹل اور ای-بکس کی طرف منتقل ہورہا ہے تو آپ کو چاہیے کہ آپ ان کی اس ضرورت کو پورا کرنے کا انتظام کریں۔ اسی حقیقت کے پیشِ نظر امریکہ میں موجود 98 فی صد لائبریریوں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے۔ آپ کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ اگر آپ افراد کے بدلتے رجحانات کو مدِ نظر نہیں رکھیں گے تو وہ آپ کی جانب آنے کے بجائے کسی اور طرف چلے جائیں گے"۔

کینیفل کا کہنا ہے کہ اس وقت امریکہ میں صرف انگریزی زبان میں ہر سال شائع ہونے والی نئی کتابوں کی تعداد تین لاکھ ہے جن میں سے بیشتر کے ایڈیشنز کئی کئی ہزار پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق سالانہ چھپنے والی کتابوں کی یہ تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتابوں کی مارکیٹ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں بھی بڑھ رہی ہے اور نتیجتاً لائبریریوں کیلیے ایک روشن مستقبل کی نوید دے رہی ہے

XS
SM
MD
LG