رسائی کے لنکس

بھارتی فلم ’نور‘ کی پاکستانی مصنفہ صبا امتیاز سے ایک ملاقات


جلد ہی ریلیز ہونے والی اس فلم کا نام ہے ’’ نور‘‘ اور بالی ووڈ ایکٹریس سوناکشی سنہا ان دنوں زور و شور سے اس فلم کی پروموشن میں مصروف ہیں۔ سوناکشی ہی فلم کی ہیروئن بھی ہیں۔

’’کراچی یو آر کلنگ می‘‘۔۔یہ عنوان پڑھ کر آپ بھی یقیناً چونکے ہوں گے ۔۔خواہ ایک لمحے کے لئے ہی سہی۔۔۔۔یہ پاکستان کی جوان سال صحافی صبا امتیاز کے ناول کا عنوان ہے۔

صبا امتیاز فری لانس صحافی اور ناول نگار ہیں۔ ان دنوں عرب ممالک میں کام کی غرض سے مقیم ہیں۔ وہ کئ بڑے اور مشہور اخبارات کے لئے عرصے سے لکھتی آئی ہیں ۔ ابتدائی تعلیم متحدہ عرب امارات جبکہ کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم کراچی سے حاصل کی۔

ان کے ناول ’’کراچی یو آر کلنگ می‘‘ اپنے پڑھنے والوں سے صبا کے قلم کا لوہا منوا چکا ہے ۔ یہاں تک کہ بھارت والے بھی اسے پسندیدگی کی سند دے چکے ہیں ۔ اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ بالی ووڈ میں اس ناول پرفلم بنا دی گئی۔

بہت جلد ریلیز ہونے والی اس فلم کا نام ہے ’’ نور‘‘ اور بالی ووڈ ایکٹریس سوناکشی سنہا ان دنوں زور و شور سے اس فلم کی پروموشن میں مصروف ہیں۔ سوناکشی ہی فلم کی ہیروئن بھی ہیں۔

فلم کی کہانی کہیے یا ناول کے نانے بانے۔۔ یہ کراچی جیسے بڑے شہر میں رہنے والی ایک خاتون صحافی عائشہ خان کی زندگی اور ان کی جدوجہد کے گرد گھومتی ہے۔۔۔ تاہم ناول میں تھوڑی سی تبدیلی کے بعد عائشہ خان کا کردار ممبئی کی ایک اور صحافی کے کردار سے جوڑدیا گیا ہے۔ یہ تبدیلی حالات کا تقاضہ بھی تھا۔

صبا امیتاز نے’’کراچی یو آر کلنگ می‘‘۔۔اور ’’نور‘‘کے حوالے سے وائس آف امریکہ سے ایک خصوصی انٹرویو میں تفصیلی تبادلہ خیال کیا جس میں ان کا کہنا تھا :

’’ہندی فلموں سے میرا لگاؤ شروع ہی سے تھا اور اب بھی ہے۔ اسی شوق کے سبب جب مجھے یہ علم ہوا کہ بالی ووڈ والوں کا میرے لکھے ناول پر فلم پروڈیوس کرنے کا ارادہ ہے تو میری کیفیت یقینی، بے یقینی اور خوشی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ خوش تھی کہ میرے ناول، میری کتاب کا تعلق فلمی دنیا سے جڑنے جا رہا ہے اور بے یقینی اس لئے تھی کہ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہوگا اور یوں اچانک ہوگا۔ ‘‘

انہوں نے مزید بتایا’’ لم بننے کی بات تو بہت دور کی ہے۔ جن دنوں ناول لکھ رہی تھی اس وقت یہ تک پتہ نہیں تھا کہ کون لوگ اسے پڑھیں گے۔ کتاب چھپی تو اسے ایک نئی جان اور نئی شکل ملی۔ میرے لئے یہی بات بہت دلچسپ تھی۔ ‘‘

ناول کا بنیادی خیال کیا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں صبا امتیاز نے بتایا’’ کہانی کا کردار عائشہ ایک بڑے شہر میں رہتا ہے۔ شہر بھی ایسا جہاں کے حالات اکثر کشیدہ رہتے ہوں۔ پھر اس کی زندگی میں جو لڑکے آئے وہ بھی ذہین نہیں ہوتے۔ انہیں لڑکیوں کی خود مختاری ہی پسند نہیں ہوتی۔ اس صورتحال میں عائشہ کی زندگی مزید مسائل میں الجھتی چلی جاتی ہے۔ ‘‘

فلم ’نور‘ کی کہانی میں بالی ووڈ پروڈیوسرز نے کچھ تبدیلی کی ہے۔ خاص کر مرکزی کردار میں جسے کراچی سے ممبئی میں تبدیلی کردیا گیا ہے۔ کیا اس تبدیلی کی آپ سے اجازت لی گئی تھی؟

وی او اے کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صبا کہتی ہیں ’’ اب تو سارے حقوق فلم پروڈیوسر کے پاس ہیں۔ ان حقوق کو باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت حاصل کیا جاتا ہے۔ ان حقوق کی رو سے پروڈیوسر جیسے چاہے تبدیلی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے لئے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب کتابوں پر فلمیں بنتی ہیں تو بہت کچھ مختلف ہوتا ہے، ویسے بھی یہ فلم میری کہانی کا ترجمہ نہیں، شروعات ضرور ہے۔ ‘‘

ایسی صورتحال میں جب دونوں جانب کے فنکاروں کا ایک دوسرے کے ملک میں جاکر کام کرنا بھی کچھ عناصر کو منظور نہ ہوآپ کے لکھے ناول پر مبنی کہانی سب کے لئے قابل قبول ہوگی؟

اس سوال پر صبا کہتی ہیں ’’نا تو ميرا فلموں سے تعلق ہے اور ناہی ميں اداکارہ ہوں البتہ فلم کی کامیابی کی تو میں توقع رکھ ہی سکتی ہوں۔ سن دوہزار چودہ میں جب میرا ناول شائع ہوا تو کچھ پاکستانی فلم سازوں نے بھی غیر رسمی طریقے سے اس پر فلم بنانے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا لیکن بات آگے نہیں بڑھ سکی۔ اب ایسا دوبارہ نہیں ہو سکتا کیوں کہ رائٹس اب میرے پاس بھی نہیں۔ ‘‘

’’کیا فلمیں دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لاسکتی ہیں؟ اس سوال پر صبا کا کہنا تھا ’’ اگر مجھے قسمت کے بارے میں پتہ ہوتا تو میں یہ ضرور جان پاتی اور جواب بھی دیتی لیکن مجھے قسمت پڑھنا نہیں آتا۔‘‘

XS
SM
MD
LG