رسائی کے لنکس

انقرہ حملہ کرد تنظیم سے منسلک شامی شہری نے کیا: ترک وزیراعظم


ترکی کے درالحکومت انقرہ میں دھماکے کے بعد تفتیشی ماہرین جائے وقوعہ پر آ رہے ہیں۔ 18 فروری
ترکی کے درالحکومت انقرہ میں دھماکے کے بعد تفتیشی ماہرین جائے وقوعہ پر آ رہے ہیں۔ 18 فروری

جمعرات کو ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی تقریر میں داؤد اوغلو نے کہا کہ یہ حملہ کرد علیحدگی پسند تنظیم ’پی کے کے‘ نے ایک ایسے شخص کے ساتھ مل کر کیا ہے جو ’’شام سے ترکی میں چھپ کر داخل ہوا۔‘‘

ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو نے کہا ہے کہ ایک شامی شخص جو کرد شدت پسند گروہوں سے رابطہ تھا انقرہ میں بمباری کا ذمہ دار ہے جس میں کم از کم 28 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

جمعرات کو ٹیلی وژن پر نشر ہونے والی تقریر میں داؤد اوغلو نے کہا کہ یہ حملہ کرد علیحدگی پسند تنظیم ’پی کے کے‘ نے ایک ایسے شخص کے ساتھ مل کر کیا ہے جو ’’شام سے ترکی میں چھپ کر داخل ہوا۔‘‘

داؤد اوغلو نے کہا کہ شامی شہری شام میں کردوں کے باغی گروہ ’وائے پی جے‘ کا رکن تھا۔

ترکی وائی پی جے اور پی کے کے دونوں کو دہشت گرد گروہ سمجھتا ہے۔

انہوں نے وائی پی جے کے خلاف عالمی مدد کی اپیل بھی کی۔ بظاہر اس کا ہدف امریکہ تھا جو داعش کے خلاف جنگ میں اس گروہ کی مدد کر رہا ہے۔

بدھ کو دارالحکومت انقرہ میں حملہ آور نے کار بم سے ٹریفک سگنل پر کھڑے فوجی قافلے کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا جس سے کم ازکم 28 افراد ہلاک اور 61 زخمی ہو گئے تھے۔

جائے وقوع سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ہی ترکی کی پارلیمان اور فوج کے صدر دفاتر بھی واقع ہیں۔

تاحال اس حملے کی ذمہ داری کسی فرد یا تنظیم نے قبول نہیں کی لیکن حالیہ مہینوں میں ہونے والے پرتشدد واقعات کی ذمہ داری شدت پسند گروپ داعش اور علیحدگی پسند کرد قبول کرتے آئے ہیں۔

داؤد اوغلو نے کہا کہ نو افراد کو حملے میں ملوث ہونے کے شبے میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔

ترکی کے ایک حکومت نواز روزنامے ’یینی شفق‘ نے جمعرات کو کہا حملہ آور نے ترکی میں اپنا اندراج مہاجر کی حیثیت سے کرا رکھا تھا اور اسے اس کی انگلیوں کے نشان سے پہچانا گیا۔

ترک فوج کی جوابی کارروائی

ترک فوج کے مطابق اس حملے سے چند گھنٹے بعد ہی ترکی کی فضائیہ نے شمالی عراق میں کرد باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے جس میں فوج کے بقول اس گروہ کے ساٹھ ستر باغیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس سے قبل بدھ کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے انقرہ میں ہونے والے کار بم حملے کے خلاف شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں ملوث عناصر کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔

صدر اردوان کا کہنا تھا کہ بم دھماکے نے تمام "اخلاقی اور انسانی حدوں" کو عبور کر لیا ہے اور ترکی حملہ آوروں اور ان کی پشت پناہی کرنے والی "قوتوں" کو جواب دے گا۔

"ترکی اپنے دفاع کے حق کو کبھی بھی، کسی بھی جگہ اور موقع پر استعمال کرنے سے نہیں ہچکچائے گا۔"

پرتشدد واقعے کی وجہ سے ترک صدر نے آذربائیجان کا اپنا طے شدہ دورہ ملتوی کر دیا جب کہ وزیراعظم نے پناہ گزینوں کے بحران سے متعلق برسلز میں یورپی یونین کے اجلاس میں شرکت کو بھی منسوخ کر دیا تھا۔

اس حملے کی اقوام متحدہ، امریکہ اور نیٹو سمیت عالمی برادری نے بھرپور مذمت کی ہے۔

ایک اور بم دھماکے میں چھ اہلکار ہلاک

دریں اثنا ترکی کے جنوب مشرقی کرد اکثریتی علاقے میں جمعرات کو ہونے والے ایک بم دھماکے میں سکیورٹی فورسز کے چھ اہلکار ہلاک اور ایک فوجی زخمی ہو گیا ہے۔

حکام کے مطابق بم دیسی ساختہ تھا جو اس وقت پھٹا جب علاقے سے ایک فوجی گاڑی گزر رہی تھی۔

اطلاعات ہیں کہ حملے کا نشانہ بننے والی فوجی گاڑی علاقے میں بارودی سرنگوں کو تلاش کر کے اُنھیں ناکارہ بنانے میں مصروف تھی۔

XS
SM
MD
LG