رسائی کے لنکس

حلب سے زخمیوں اور شہریوں کا انخلا شروع


مشرقی حلب سے جانے کے لیے بس میں سوار بچے کے چہرے پر خوشی نمایاں ہے۔ 15 دسمبر 2016
مشرقی حلب سے جانے کے لیے بس میں سوار بچے کے چہرے پر خوشی نمایاں ہے۔ 15 دسمبر 2016

حلب میں باغیوں کے زیر قبضہ آخری حصے سے جمعرات کے روز زخمیوں اور عام شہریوں کو بسوں اور ایمبولنسز کے ذریعے نکالنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ، جس پر ایک روز پہلے عمل درآمد سرکاری فورسز اور باغیوں کے درمیان شدید جھڑپوں کے باعث روک دیا گیا تھا۔

بسوں اور ایمبولنسز کی لمبی قظاریں حلب کے مشرقی علاقے سے جو اس وقت محاصرے میں ہے، حکومتی کنٹرول کے علاقوں کی طرف جا رہی ہیں جن کی آخری منزل ایک اور صوبے کا وہ علاقہ ہے جس پر باغیوں کا قبضہ ہے۔

ریڈکراس کی بین الاقوامی کمیٹی اور سیرین عرب ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے کہا ہے کہ حلب سے نکلنے والا پہلا قافلہ جمعرات کی سہ پہر حفاظتی زون میں پہنچ گیا۔

صحت کے عالمی ادارے کے مطابق انخلا کے عمل میں 21 بسیں اور 19 ایمبولنس گاڑیوں نے حصہ لیا۔

مشرقی حلب میں ایک معذور خاتون شہر چھوڑنے کی منتظر ہے۔ 15 دسمبر 2016
مشرقی حلب میں ایک معذور خاتون شہر چھوڑنے کی منتظر ہے۔ 15 دسمبر 2016

ریڈ کراس کے بین الاقوامی ادارے اور شام کی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی نے کہا ہے کہ وہ لگ بھگ دوسو زخمیوں کے انخلا میں شامل ہیں جن میں سے کچھ کی حالت نازک ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے امور سے متعلق سفیر جین ایگلینڈ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ انہیں امید ہے کہ وہ مشرقی حلب میں ، جس پر باغیوں نے 2012 میں قبضہ کر لیا تھا، انخلا کی آخری اور کامیاب کوشش کا آغاز ہوتا دیکھیں گے۔

آج روس نے اس بارے میں تفصیلات فراہم کی ہیں کہ ٹاسک فورس میں انخلا کیسے ہو گا اور انہوں نے تصدیق کی ہے کہ روسی اس عمل کی نگرانی کررہے ہوں گے ۔ اور یہ ایک ایسا انخلا ہے جو فوری طور پر ہو گا اور اس میں بیورو کریسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا اور اس میں کوئی بے جا مداخلت نہیں ہوگی اور جن لوگوں کا انخلا ہو گا انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔

شام کے ٹیلی وژن نے شام کے پرچم کی تصاویر نشر کیں جنہیں جمعرات کے روز مشرقی حلب میں ایک بلند مقام پر لہرایا جا رہا تھا۔

ریڈ کریسنٹ کے اہل کار باغیوں اور ان کے اہل خانہ کو بس میں سوار کر رہے ہیں۔ 15 نومبر 2016
ریڈ کریسنٹ کے اہل کار باغیوں اور ان کے اہل خانہ کو بس میں سوار کر رہے ہیں۔ 15 نومبر 2016

حلب کے رہائشیوں کو اس وقت امدادی گاڑیوں کی جانب دوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا جب وہ شہر میں داخل ہو نے کے لیے اپنا راستہ بنا رہی تھیں ۔

ایگلینڈ نے کہا کہ شہر سے جن لوگوں کو نکالا جا رہا ہے ان میں زخمیوں اور بیمار اور کمزور افراد اور دوسرے کمزور شہری اور باغی جنگجو وں شامل ہیں ۔

یہ کارروائی بدھ کی رات ایک معاہدہ طے پانے کے بعد ہوئی تھی لیکن جس پر عمل درآمد اس وقت بہت غیر یقینی ہو گیا جب بدھ کی صبح ایک طے شدہ انخلا پر عمل درآمد نہ ہو سکا اور حلب میں ایک فائر بندی ناکام ہو گئی۔

جمعرات کی صبح تشدد کے مزید واقعات کی خبریں ملیں اور سرگرم کارکن اور طبی شعبے کے مقامی عہدے داروں نے بتایا کہ حکومت نواز فورسز نے ایک ایمبولینس پر فائرنگ کی جس نے باغیوں کے زیر قبضہ علاقے سے نکلنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں تین لوگ زخمی ہو گئے ۔

حلب سے باغیوں کی حتمی روانگی شام کے صدر بشار الاسد کی ایک بڑی کامیابی ہو گی۔ حلب پر کئی برسوں کی لڑائی اور حکومت کے محاصرے نے شہر کے بیشتر علاقے کو ملبے میں تبدیل کر دیا ہے۔

مشرقی حلب کے رہائشی شہر چھوڑنے کے لیے بسوں کے منتظر ہیں۔ 15 دسمبر 2016
مشرقی حلب کے رہائشی شہر چھوڑنے کے لیے بسوں کے منتظر ہیں۔ 15 دسمبر 2016

اس سے پہلے میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا تھا کہ شام کے شہر حلب میں باغیوں کی زیر کنٹرول علاقے سے لوگوں کے انخلا کے لیے بسیں اور ایمبولینس گاڑیاں جمعرات کو تیارکھڑی ہیں تاہم مسلسل دوسرے دن بھی یہ واضح نہیں کہ انخلا کے اس منصوبے پر عمل درآمد ہو گا یا نہیں۔

یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ لوگ جنہیں طبی امداد کی ضرورت ہے انہیں سب سے پہلے مشرقی حلب نکالا جائے گا جب کہ اس کے بعد دیگر عام شہریوں اور باغیوں کو نکالا جائے گا۔

یہ وہ علاقہ ہے جہاں 2012 میں حزب مخالف کی فورسز نے قبضہ کر لیا تھا۔ مقامی سرگرم کارکنوں اور طبی امدادی کارکنوں نے کہا کہ حکومت نواز فورسز نے اس ایمبولینس گاڑی پر فائرنگ کی جس نے باغیوں کی زیر کنٹرول علاقے سے باہر جانے کی کوشش کی اور اس سے تین افراد زخمی ہوئے۔

اُدھر شامی باغیوں نے بدھ دیر گئے کہا تھا کہ مشرقی حلب سے عام شہریوں اور جنگ کی وجہ سے زخمی ہونے والے افراد کے انخلا کے لیے ایک نیا سمجھوتہ طے پا گیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ باغیوں کے زیر کنٹرول علاقے سے پناہ گزین آئندہ چند گھنٹوں کے بعد نکلنا شروع ہو جائیں گے۔

حلب میں باغیوں کے ذرائع اور اقوام متحدہ کے کارکنوں نے نئی جنگ بندی کی اطلاعات کی تصدیق کی ہے تاہم شام میں سرکاری عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی سمجھوتے سے آگاہ نہیں ہیں۔

اگر شہر سےانخلا شروع ہو جاتا ہے تو حلب میں مزاحمت کا خاتمہ صدر بشاالاسد کے لیے ایک بڑی فتح ہو گی۔

اس سے پہلے لڑائی روکنے کے لیے منگل کو طے پانے والا سمجھوتہ، محصور علاقے سے انخلا سے قبل ہی ناکام ہو گیا تھا اور پہلے شہر میں ایک بار بھی لڑائی شروع ہو گئی۔

جنگ زدہ مشرقی حلب میں سردی اور بھوک کا شکار عام شہری بحفاظت شہر سے نکلنے کی امید پر جمع ہوئے۔

اس علاقے میں سرگرم ایک کارکن محمد الخطاب جس سے ایک نامہ نگار نے رابطہ قائم کیا نے کہا کہ"بمباری جاری ہے، کوئی بھی حرکت نہیں کر سکتا ہے۔ ہر کوئی چھپا ہوا اور خوف زدہ ہے۔"

"زخمی اور مارے جانے والے گلیوں میں پڑے ہیں۔کسی میں بھی یہ حوصلہ نہیں ہے کہ وہ لاشوں کو نکالنے کی کوشش کرے۔"

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زید راعد الحسن نے کہا کہ بدھ کو دوبارہ شروع ہونے والے لڑائی خوفناک ہے اور شامی فورسز اور ان کے اتحادیوں کی ان علاقوں پر شدید بمباری شروع کرنا ''امکانی طور پر جنگی جرائم کے زمرے میں آتا ہے۔"

زید نے شامی حکومت سے حلب شہر کے مکینوں کو طبی امداد فراہم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے تحت ایسا کرنا ضروری ہے۔

برطانیہ میں قائم تنظیم ’سیرئین آبزرویٹری فار ہیومین رائٹس‘ نے کہا کہ باغیوں اور سرکاری کنٹرول والے علاقوں میں "ہر محاذ پر شدید لڑائی ہو رہی تھی۔" یہ اطلاعات ملی کہ دونوں فریقین کا جانی نقصان ہوا۔

XS
SM
MD
LG