رسائی کے لنکس

ٹرمپ مخالف باغی الیکٹورل کالج کا اجلاس پیر کو منعقد ہوگا


ٹیکساس: الیکٹورل کالج کا ایک رُکن، ریکس ٹیٹر (فائل)
ٹیکساس: الیکٹورل کالج کا ایک رُکن، ریکس ٹیٹر (فائل)

اس مہم کا روح رواں، ’ہیملٹن الیکٹرز‘ گروپ ہے، جسے الیگزینڈر ہیملٹن کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، جو امریکہ کے بانیوں میں سے تھے، اور الیکٹورل کالج وضع کرنے والوں میں سرفہرست تھے

ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی فتح کو ایک ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے، جو امریکی صدارتی انتخابی تاریخ کی ایک متنازع ترین مہم خیال کی جاتی ہے۔ یا یہ کہ عام خیال یہی ہے۔

درحقیقت، سرکاری نتائج کا اعلان پیر سے قبل نہیں ہوگا، جب تک الیکٹورل کالج کے 538 ارکان کا ملک بھر میں اجلاس منعقد نہیں ہوتا؛ اور وہ اپنا ووٹ نہیں ڈالتے۔ دراصل اِسی ووٹ سے ہی اگلے صدر کا فیصلہ ہوگا۔

الیکٹورل کالج ایک رسمی کارروائی ہوا کرتی ہے، جس کی جانب شاذ و نادر ہی دھیان مرتکز ہوتا ہے۔ تاہم، اس سال ایسا نہیں، جب آخری معرکہ الیکٹورل کالج کا ہے جسے استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ کو عہدہٴ صدارت سے محروم رکھنے کی ایک کوشش کی جا رہی ہے۔

یہ ایک خواہش ہے۔ لیکن، انتخابی بغاوت کا یہ ماحول الیکشن میں غیر یقینی عنصر پیدا کر رہا ہے، جو عمل ناقابل پیش گوئی نوعیت کا حامل ہے۔

اس مہم کا روح رواں، ’ہیملٹن الیکٹرز‘ گروپ ہے، جسے الیگزینڈر ہیملٹن کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، جو امریکہ کے بانیوں میں سے تھے، اور الیکٹورل کالج وضع کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔

ہیملٹن اور دیگر بانیوں نے الیکٹورل کالج کو ترتیب دیا تاکہ وہ لوگ جو صدر کے براہِ راست انتخاب کے حامی ہیں اور وہ جو اس بات کے خواہاں ہیں کہ صدر کا انتخاب کانگریس ہی کرے، دونوں کے درمیان سمجھوتے کی ایک فضا قائم کی جاسکے۔

یہ نظام ضمانت کا بھی درجہ رکھتا ہے، تاکہ ایسا امیدوار جو عہدہٴ صدارت کے لیے غیر موزوں ہو اُنھیں دور رکھا جاسکے، جس نکتے کو ’ہیملٹن الیکٹرز‘ نے اٹھایا ہے اور اُسے نمایاں کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

گروپ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم الیگزینڈر ہیملٹن کے نصب العین کی حرمت کے امین ہیں ،اور جب بھی ضروری ہو، اس آئینی شق کو استعمال کرتے ہوئے کسی ایسے صدر کو عہدہٴ صدارت سے دور رکھا جاسکے جو اس عہدے کے لیے درکار اہلیت پر پورا نہیں اترتا‘‘۔

الیکٹورل کالج کا نظام مندرجہ ذیل طریقے سے کام کرتا ہے:

جب امریکی ووٹروں نے نومبر میں رائے دہی میں حصہ لیا، تکنیکی طور پر اُنھوں نے صدارتی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیا۔ بلکہ، اُنھوں نے الیکٹرز یا اُن کے نمائندوں کے لیے ووٹ ڈالا۔ ہر ریاست کے الیکٹرز کا تناسب اُس ریاست کی آبادی سے ہوتا ہے۔ ادھر، یہ الیکٹرز اپنا ووٹ، عام طور پر، اپنی ریاست میں ’پوپولر ووٹ‘ جیتنے والے امیدوار کے حق میں ڈالتے ہیں۔

اُن ریاستوں میں جہاں ٹرمپ نے پوپولر ووٹ جیتا، اُنھیں تمام الیکٹورل ووٹ ملیں گے۔ سادہ اکثریت کے حصول کے لیے، اُنھیں 270 ووٹ درکار ہیں، جب کہ اُنھیں 306 الیکٹورل ووٹ ملیں گے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ الیکٹورل بغاوت کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ 37 ری پبلیکنز، جو ٹرمپ کو ووٹ دیں گے، وہ اُن کا ساتھ چھوڑ دیں۔

اب تک، صرف ایک ہی ری پبلیکن الیکٹر نے کھل کر اِس بات کا اعلان کیا ہے۔

اِس الیکٹر کا نام کرسٹوفر سُپرون ہے۔ وہ صحت عامہ کے پیشے سے منسلک ہیں اور ٹیکساس کے شہر ڈیلاس میں مقیم ہیں۔ ٹیلی فون پر ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے، سُپرون نے بتایا کہ ٹرمپ صدر بننے کے اہل نہیں، چونکہ عالمی مالیاتی سمجھوتوں کے دوران، ارب پتی کاروباری شخص کے ذاتی اور ملکی مفادات میں تضاد کا معاملہ درپیش آ سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG