رسائی کے لنکس

عرب نژاد امریکی اپنا وجود تسلیم کرانے کیلیے پرعزم


ریورینڈ جیسی جیکسن (دائیں) اور جیمز زوگبی
ریورینڈ جیسی جیکسن (دائیں) اور جیمز زوگبی

جیمز زوگبی کا شمار امریکہ کے چند بااثر عرب امریکی رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ لبنانی تارکینِ وطن خاندان سے تعلق رکھنےوالے زوگبی نے اپنے "عرب امریکن انسٹیٹیوٹ" کے پلیٹ فارم سے عرب نژاد امریکیوں کو متحرک کر کے انہیں امریکی سیاسی منظر نامے کے ایک ایسے شریک میں تبدیل کردیا ہے جس کی اہمیت کو نظر انداز کرنا اب امریکی سیاسی جماعتوں، عوام اور میڈیا سمیت کسی کیلیے بھی ممکن نہیں رہا۔

آغازِ سفر

زوگبی نے اپنی سرگرم سیاسی زندگی کا آغاز امن کیلیے کام کرنے والے امریکی شاعر ڈینیل بیریگن سے متاثر ہوکر اپنے کالج کے زمانے میں کیا۔ وہ 1960 کی دہائی میں چلنے والی شہری حقوق اور خلافِ جنگ تحریکوں میں شریک رہے ۔ بقول ان کے وہ کالج کے طالبِ علم تھے جب انہوں نے پہلی بار کسی مظاہرے میں حصہ لیا۔

زوگبی کا کہنا ہے کہ انہیں اپنے عرب ماضی اور اس سے وابستہ بنیادوں کا ادراک ہمیشہ سے تھا۔ تاہم 1967 کی عرب-اسرائیل جنگ وہ موقع تھی جس نے زوگبی کو یہ شعور بخشا کہ ان کی انسانی حقوق اور امن کیلیے جدوجہد کا فائدہ مشرقِ وسطیٰ میں بسنے والے ان کے عرب ہم قوموں کو بھی پہنچنا چاہیے۔

زوگبی کے والد 1922 میں غیر قانونی طور پر لبنان سے امریکہ آئے تھے۔ بعد ازاں وہ حکومت کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کو دی گئی ایک عام معافی کے تحت امریکی شہریت کے حقدار ٹہرے۔ جبکہ زوگبی کا ننھیال 1898 میں امریکہ آیا تھا اور ان کی والدہ اپنی جائے رہائش ، نیو یارک کے علاقے یوٹیکا، کی مقامی عرب کمیونٹی میں خاصی سرگرم رہا کرتی تھیں ۔

عرب امریکی انسٹیٹوٹ کے بانی جیمز زوگبی
عرب امریکی انسٹیٹوٹ کے بانی جیمز زوگبی

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے عرب امریکن کمیونٹی کے معاملا ت میں زوگبی کی مصروفیت بڑھتی گئی، انہوں نے کئی اہم تنظیموں میں خدمات انجام دینے کے علاوہ خود بھی آگاہی فراہم کرنے والے کئی گروپوں کی بنیاد ڈالی، جن میں سرِ فہرست ایسوسی ایشن آف عرب امریکن یونیورسٹی گریجویٹس، فلسطینی تحریک برائے انسانی حقوق اور امریکن-عرب اینٹی ڈسکریمی نیشن کمیٹی شامل ہیں۔

ثقافتی رابطے

زوگبی نے 1970 کی دہائی میں ٹیمپل اور پرنسٹن جیسی جامعات سے مذہب کی تعلیم حاصل کی جو خود ان کے بیان کے مطابق "ان کی آنکھیں کھولنے کا سبب بنی"۔

لبنان کی پہاڑیوں میں جیمز زوگبی کا آبائی گھر
لبنان کی پہاڑیوں میں جیمز زوگبی کا آبائی گھر

"مذہب کی تعلیم اور خصوصاً اس کام نے جو میں نے بعد ازاں اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے کیلیے کیا مجھے مذہب اور اس سے وابستہ ثقافت کے درست رخ سے آگاہی بخشی۔ اس آگاہی نے ہی مجھے اس کام پہ آمادہ کیا ہے جو میں آج کررہا ہوں۔ میری رائے ہے کہ اب میں اس دنیا کو ، اس میں بسنے والے لوگوں کو اور ان کے خیالات کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتا ہوں۔ درحقیقت یہ اس تعلیم اور میرے کام کا نتیجہ ہے کہ میں اب امریکہ کو بھی زیادہ بہتر طور پر سمجھنے کے قابل ہوں"۔

امریکی معاشرے کے اسی فہم کے فروغ کیلیے زوگبی امریکہ اور عرب دنیا کے درمیان ایک ثقافتی پل کا کام انجام دے رہے ہیں۔ ایک عرب اخبار میں چھپنے والے اپنے ہفتہ وار کالم اور ابو ظہبی ٹیلی ویژن اور کئی دیگر امریکی کیبل ٹی وی نیٹ ورکس پر نشر ہونے والے اپنے ٹاک شو کے ذریعے زوگبی عرب قارئین اور ناظرین کو امریکی سیاست سے آگاہ کرنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جیمز زوگبی سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ
جیمز زوگبی سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھ

زوگبی نے 1984 میں سان فرانسسکو میں ہونے والے ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی کنونشن سے خطاب کرکے عرب امریکنوں کے اہم ترین ترجمان کے طورپر اپنی شناخت بنائی۔

اس تجربے کے بارے میں ان کا کہنا ہے، "میں کسی بھی امریکی سیاسی کنونشن سےخطاب کرنے والا پہلا عرب امریکی تھا۔ اور وہاں مجھے یہ اعزاز ملا کہ میں جیسی جیکسن کو امریکی صدارتی عہدے کیلیے امیدوار نامزد کرنے کا اعلان کروں۔ اس دن میں نے دنیا کے سامنے کھڑے ہوکر بڑے فخر سے کہا تھا کہ 'میں ایک عرب نژاد امریکی ہوں۔ میرا باپ ایک غیر قانونی تارکِ وطن کے طور پر لبنان کی پہاڑیوں میں موجود ایک کمرے کے مکان سے بھا گ کر امریکہ آیا تھا۔ اور آج میں، ایک غلام کا پوتا، ایک فرد کو اس مملکت کی صدارت کیلیے نامزد کرنے جا رہا ہوں'۔ بھلا آپ ہی بتائیے کہ کیا اس سے بہتر امریکی کہانی بھی کوئی ہوسکتی ہے؟"

عرب امیریکن انسٹیٹیوٹ

زوگبی نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا تھا کہ اگر عرب نژاد امریکی ، امریکہ کی پالیسیوں اور حکومتی عہدیداران پر اپنا اثرورسوخ قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مقامی سیاست میں سرگرم ہونا پڑے گا۔ اسی خیال کے تحت انہوں نے 1985 میں 'عرب امریکن انسٹیٹیوٹ' کی بنیاد ڈالی۔ آج اس انسٹیوٹ کا شمار امریکہ میں بسنے والی عرب آبادی کے سیاسی اور پالیسی ریسرچ کے نمائندہ ادارے کے طور پر کیا جاتا ہے۔

جیمز زوگبی سابق امریکی صدر رانلڑ ریگن کے ساتھ
جیمز زوگبی سابق امریکی صدر رانلڑ ریگن کے ساتھ

زوگبی کا شمار امریکی ڈیموکریٹ پارٹی کے سرگرم رہنمائوں میں ہوتا ہے اور وہ صدر بل کلنٹن اور بارک اوباما کی جانب سے عہدہ صدارت کیلیے چلائی جانے والی مہمات میں بطورِ مشیر بھی کردار ادا کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ امریکہ کی مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے پالیسیوں اور عرب اور مسلم امریکیوں کے شہری حقوق جیسے موضوعات پر کئی بار امریکی کانگریس کی مختلف کمیٹیوں کے سامنے بیانِ حلفی بھی دے چکے ہیں۔

زوگبی کا کہنا ہے کہ ان کے آگے ابھی بہت سے ایسے میدان موجود ہیں جو انہیں سر کرنے ہیں۔ ان کے خیال میں عرب امریکنوں کے حقوق کی اس جدوجہد میں وہ جیسے جیسے آگے بڑھیں گے، ان کے ہم قوم ایک زیادہ اہم اور ذمہ دار کردار ادا کرنے کے قابل ہوتے جائینگے۔

جیمز زوگبی اور سابق امریکی صدر جیمی کارٹر
جیمز زوگبی اور سابق امریکی صدر جیمی کارٹر

وہ کہتے ہیں، "اس وقت سورج کی کرنوں کو بادلوں نے روک رکھا ہے۔ مگر یہ بادل زیادہ عرصے تک ان کرنوں کو ہم تک پہنچنے سے نہیں روک پائیں گے۔ اور مجھے یقین ہے کہ بالآخر فتح سچ کی ہوگی اور ہماری کمیونٹی کو اپنا وجود تسلیم کرانے کی جدوجہد میں کامیابی ملے گی۔ مجھے یقین ہے کہ ہم گرائونڈ زیرو پر مسجد کے قیام کے معاملے پر پیدا ہونے والے تنازعے کو حل کرنے میں کامیاب ہوجائینگے۔ اور مجھے یقین ہے کہ اس تمام تر نفرت اور امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوگا۔ مجھے یقین ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں انصاف اور امن ہمارا مقدر ٹہرے گا کیونکہ اس کے علاوہ اس مسئلہ کا کوئی اور حل ممکن ہی نہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ جب تک ہم اپنا کام اور اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ہم مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائینگے"۔

XS
SM
MD
LG