رسائی کے لنکس

آسیان کے اجلاس میں اہم علاقائی مسائل موضوع بحث


آسیان کے اجلاس میں اہم علاقائی مسائل موضوع بحث
آسیان کے اجلاس میں اہم علاقائی مسائل موضوع بحث

آسیان کے لیڈر مشرقی ایشیا کے سربراہ اجلاس میں آسٹریلیا، چین، بھارت، جاپان، نیو زی لینڈ اور جنوبی کوریا کے سربراہانِ مملکت سے بھی ملیں گے۔ روس اورامریکہ کو اس اجتماع میں مبصرین کی حیثیت سے مدعو کیا گیا ہے اور2011ء میں انہیں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔

ہنوئی میں اس ہفتے ایشیا اور دنیا کے لیڈر جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقی ایشیا کے ملکوں کے سربراہ اجلاسوں کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ان سالانہ اجلاسوں میں بیشتر توجہ علاقائی تعاون اور اقتصادی اُمور کو دی جائے گی لیکن توقع ہے کہ بحری گذر گاہوں کے بارےمیں چین کے دعوے اور برما کا متنازعہ انتخاب بھی زیرِ بحث آئے گا۔

ویتنام میں 28 سے30 اکتوبر تک ایسوسی ایشن آف ساؤتھ ایشن نیشنز یا آسیان کے ملکوں کے سربراہ اجلاس کے ایجنڈے میں تجارت اور اقتصادی تعاون کے اُمور سرِ فہرست ہوں گے۔

آسیان کے 10 رکن ممالک یعنی برونائی، برما، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویتنام 2015ء تک یورپی یونین کے طرز کی کمیونٹی قائم کرنا چاہتے ہیں۔ منصوبہ یہ ہے کہ اقتصادی تعاون کو بہتر بنایا جائے اوردفاع سے لے کر بین المملکتی جرائم، توانائی، ماحول اور غربت جیسے مسائل تک پر مل جُل کر کام کیا جائے۔

آسیان کے لیڈر مشرقی ایشیا کے سربراہ اجلاس میں آسٹریلیا، چین، بھارت، جاپان، نیو زی لینڈ اور جنوبی کوریا کے سربراہانِ مملکت سے بھی ملیں گے۔ روس اورامریکہ کو اس اجتماع میں مبصرین کی حیثیت سے مدعو کیا گیا ہے اور2011ء میں انہیں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔

Carl Thayer آسٹریلیا کی ڈیفینس فورس اکیڈمی میں سیاسیات کے پروفیسر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکہ نے اس علاقےمیں جس طرح اپنے رابطے بڑھائے ہیں اس پر چین خوش نہیں ہے۔

جولائی میں وزیرِخارجہ ہلری کلنٹن نے جب آسیان کے اجلاس میں یہ کہا کہ ساؤتھ چائنہ سمندر میں جہاز رانی کی آزادی سے امریکہ کا قومی مفاد وابستہ ہے تو چین نے اس پر سخت رد عمل کا اظہار کیا۔

بیجنگ پورے South China Sea کا دعویدار ہے اوراس طرح Paracel اورSpratly جزیروں پر اس کا برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام سے اختلاف ہو جاتا ہے۔ خیال ہے کہ ان جزیروں میں تیل اور قدرتی گیس کے بہت بڑے ذخائر موجود ہیں اور یہ انتہائی اہم بحری گذرگاہوں کے نزدیک واقع ہیں۔

جنوری میں آزاد تجارت کے سمجھوتے پر عمل درآمد شروع ہونے کے بعد چین اور آسیان کے ملکوں کے درمیان تجارت میں پچاس فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اقتصادی تعلقات میں اضافے کے باوجود یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے پروفیسر مارک بیسن کہتے ہیں کہ چین کے جارحانہ رویے سے کشیدگی پیدا ہو رہی ہے۔’’جنوب مشرقی ایشیا کے بعض نسبتاً چھوٹے ملکوں کو چین کے عروج پر تشویش ہے کیوں کہ وہ کسی قدر خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ میرے خیال میں، حالیہ واقعات، خاص طور سے South China Sea میں جاپان اور چین کے درمیان رابطے میں چین کا جو رویہ رہا اس سے علاقے میں اچھی خاصی سراسیمگی پھیل گئی ہے ۔ ویتنام میں جو مذاکرات ہوں گے ان میں یہ معاملہ خاص طور سے زیرِ بحث آئے گا‘‘۔

تجارتی ایگزیکٹیوز کہتے ہیں کہ چین نے جاپان کو بعض اہم معدنیات کی بر آمد کم کر دی ہے۔ یہ اس واقعے کے بعد کیا گیا جب ستمبر میں جاپانی گشتی کشتیوں نے جزیروں کے ایک متنازعہ سلسلے کے نزدیک ماہی گیری کی ایک چینی کشتی کو حراست میں لے لیا۔

چینی بحریہ South China Sea میں اکثر ویتنامی ماہی گیروں کی کشتیوں کو پکڑ لیتی ہے۔ ا س سے یہ خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ چین اقتصادی اور فوجی طاقت کے بَل پران جزیروں پر اپنا حق ملکیت جتانا چاہتا ہے۔

ہنوئی کی اجلاس میں توقع ہے کہ برما کے انتخابات کے بارے میں بھی، جو 7 نومبر کو ہونے والے ہیں، تشویش کا اظہار کیا جائے گا۔ برما کی فوجی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ انتخابات ملک میں نصف صدی کی فوجی حکومت کے بعد جمہوریت کی جانب سفر کا حصہ ہیں۔ لیکن پارلیمینٹ میں فوج کو پچیس فیصد نشستوں کی ضمانت دی گئی ہے، حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کو بے اثر بنا دیا گیا ہے اور لاکھوں افراد پر مشتمل نسلی اقلیتوں کو ووٹ کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔

Carl Thayer کہتے ہیں کہ ’’اس بات کا امکان نہیں ہے کہ آسیان کی طرف سے برما کے انتخاب پر تنقید کی جائے۔’’ یہ بڑا مشکل مسئلہ ہے۔ اس کی مذمت کرنا آسان ہے لیکن کچھ کرنا مشکل ہے۔ لیکن آسیان اس کا ساتھ دے گی کیوں کہ اگر ہم کمبوڈیا یا لاؤس یا ویتنام کے انتخابات پر نظر ڈالیں جو بالکل ڈھکوسلا ہوتے ہیں توان ملکوں کے مقابلے میں برما کے انتخابات کچھ بہتر ہوتے ہیں‘‘۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون بھی ہنوئی کی اجلاس میں شرکت کریں گے۔ انھوں نے کہا ہے کہ جب تک جمہوریت کی حامی لیڈر آنگ سان سوچی گھر میں نظر بند رہیں گی ان انتخابات کی قانونی حیثیت مشتبہ رہے گی۔

نوبیل انعام یافتہ خاتون لیڈر کی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے آخری انتخابات جو 1990ء میں ہوا تھا، جیت لیا تھا، لیکن فوج نے نتائج کو نظر انداز کر دیا اوراس کے بعد سے اب تک بیشتر وقت انہیں گھر میں بند رکھا ہے۔

XS
SM
MD
LG