رسائی کے لنکس

پاکستان روایتی ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک


سویڈن میں قائم تحقیقاتی ادارے اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی تازہ ترین جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان بھاری روایتی ہتھیار درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔

یہ انکشاف ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب مختلف حلقوں کے خیال میں ملک کے دفاعی اخراجات اقتصادی و سماجی شعبوں میں بہتری کی کوششوں میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔

پاکستان پر طویل عرصے سے تنقید کی جاتی رہی ہے کہ کمزور معیشت ہونے کے باوجود اس کا دفاعی بجٹ ضرورت سے زائد ہے، جس کی وجہ سے ترقی کی شرح سست روی کا شکار ہے۔

دفاعی اخراجات کے ناقدین کا کہنا ہے کہ عسکری قیادت نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ملک میں ایسا ماحول پیدا کر رکھا ہے جس میں دفاع کو تمام دیگر اُمور سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔

جوہری ہتھیاروں کے ناقد اور طبیعیات کے پروفیسر عبدالحمید نیئر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو ممکنہ بیرونی خطرات سے محفوظ رکھنے کے لیے فوجی صلاحیت میں مسلسل اضافے کی حکمت عملی کی وجہ سے ملک کا مجموعی نظام بگڑ چکا ہے۔

’’پاکستان نے اپنے آپ کو سکیورٹی اسٹیٹ بنا کر بہت شدید نقصان پہنچایا ہے اور اس ہی سوچ کے تحت پاکستان ابھی تک اسلحہ خریدنا انتہائی ضروری سمجھتا ہے۔‘‘

اُنھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اقتصادی و سماجی ترقی کا فروغ حکومت کی توجہ کا مرکز ہونا چاہیئے۔

پروفیسر عبدالحمید نیئر
پروفیسر عبدالحمید نیئر

’’پاکستان انسانی ترقی کی درجہ بندی پر انتہائی نیچے ہے، تعلیم و صحت کا نظام بری طرح بگڑا ہوا ہے، اور خوشحالی کے کوئی آثار نہیں ہیں جب کہ دنیا میں ہر جگہ تیزی کے ساتھ صنعتی ترقی ہو رہی ہے۔‘‘

عبدالحمید نیئر کا کہنا تھا کہا کہ پاکستان جوہری پروگرام کو یہ کہہ کر ترقی دیتا آیا ہے کہ بھارت کے یہ صلاحیت حاصل کرنے کے بعد خطے میں توازن کا قیام ناگریر ہو گیا تھا اور جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کی وجہ سے دونوں روایتی حریفوں کے درمیان چھوتی جنگ کے امکانات انتہائی محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ جوہری پروگرام کے حامیوں کا ہمیشہ موقف رہا کہ ان ہتھیاروں کے حصول کے بعد پاکستان کے دفاعی اخراجات میں نمایاں کمی ہو جائے گی لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوا۔

پاکستانی مسلح افواج کے اخراجات کا دفاع کرنے والوں کا کہنا ہے کہ پاکستان ایک جانب دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے تو دوسری جانب خطے میں تیزی سے تبدیل ہوتی سلامتی کی صورت حال بھی دفاعی بجٹ میں اضافے کا تقاضا کر رہی ہے۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ بھارت نے حال ہی میں آئندہ مالی سال کے لیے اپنے دفاعی بجٹ میں 40 ارب ڈالر کے اضافے کا اعلان کیا ہے جو 17 فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کی جائزہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 2007ء سے 2011ء کے درمیان ایشیا دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار درآمد کرنے والا براعظم رہا، جب کہ بھارت کو اسلحہ درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بتایا گیا ہے۔

ایس آئی پی آر آئی نے پیر کو جاری کیے گئے جائزے میں کہا ہے کہ عالمی طور پر گزشتہ پانچ سالوں میں بڑے روایتی ہتھیاروں کی منتقلی کے حجم میں ماضی کے مقابلے میں 24 فیصد اضافہ ہوا۔

اس عرصے میں ایشیا اور اوقیانوسیہ یعنی بحرالکاہل اور ملحقہ علاقوں میں موجود جزائر میں درآمد کیے گئے اس روایتی بھاری اسلحے کا مجموعی حجم 44 فیصد رہا جس میں سے 10 فیصد بھارت نے درآمد کیے۔

ہتھیاروں کی درآمد میں خطے کے دیگر ملکوں میں شمالی کوریا کا حصہ چھ فیصد، چین اور پاکستان دونوں کا پانچ، پانچ فیصد اور سنگاپور کا حصہ چار فیصد بتایا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان پانچ ملکوں نے بین الاقوامی اسلحے کا ایک تہائی یعنی 30 فیصد درآمد کیا۔ ’’2002ء سے 2006ء اور 2007ء سے 2011ء کے درمیان بھارت میں بھاری اسلحے کی درآمدات میں 38 فیصد اضافہ ہوا۔ لڑاکا طیاروں کی نمایاں منتقلی میں 120 ایس یو-30 ایم کے اور 16 مگ-29 کے روس جبکہ 20 جگوار ایس برطانیہ سے درآمد کیے گئے۔‘‘

پاکستان نے اس عرصے کے دوران جےایف-17 نامی 50 لڑاکا طیارے چین سے حاصل کیے اور امریکہ سے ملنے والے ایف سولہ طیاروں کی تعداد 30 رہی۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان نے بڑی تعداد میں ٹینک بھی درآمد کیے ہیں اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

ایس آئی پی آر آئی کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ پانچ سال کے دوارن ایشیائی ممالک کے مقابلے میں براعظم یورپ میں اسلحہ کی درآمد کا حجم 19 فیصد، مشرق وسطٰی کا 17 فیصد، شمالی اور جنوبی افریقہ کا گیارہ فیصد جبکہ افریقہ کا 9 فیصد رہا۔

XS
SM
MD
LG