رسائی کے لنکس

امریکی حملوں کا امکان بدستور موجود ہے: صدر اسد


صدر بشار الاسد
صدر بشار الاسد

وینیزویلا کے ٹیلی ویژن سے گفتگو میں شام کے صدر نے کہا کہ اُن کی حکومت امریکہ اور روس کی مدد سے ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد کا عزم رکھتی ہے۔

شام کے صدر بشار الاسد کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق معاہدے پر اتفاق کے باوجود اپنے ملک پر امریکہ کی جانب سے فوجی حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دے رہے ہیں۔

وینیزویلا کے ٹیلی ویژن چینل ٹیلیسور سے گفتگو میں صدر اسد نے کہا کہ اُن کی حکومت امریکہ اور روس کی مدد سے ہونے والے اُس معاہدے پر عمل درآمد کا عزم رکھتی ہے جس کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں حتمی شکل دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

مسٹر اسد نے کہا کہ اُن کی نظر میں اس منصوبے کی راہ میں کوئی بڑی ’’رکاوٹیں‘‘ نہیں، لیکن اُنھوں نے متنبہ کیا کہ دہشت گرد اقوام متحدہ کے اُن ماہرین کے کام میں خلل ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں جنھیں شام کے کیمیائی ہتھیار اپنی تحویل میں لینے کی ذمہ داری سونپی جائے گی۔

ہتھیاروں کی حوالگی سے متعلق معاہدہ امریکہ کی جانب سے شام کے خلاف فضائی حملوں کے انتباہ کے بعد تجویز کیا گیا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ شامی فورسز نے گزشتہ ماہ باغیوں کے زیر قبضہ علاقے پر زہریلی گیس کا حملہ کیا جس سے سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، تاہم مسٹر اسد ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

مسٹر اسد کی جانب سے معاہدے پر اتفاق کے بعد امریکہ نے فضائی کارروائی موخر کر دی، لیکن شام کے صدر نے ٹیلیسور کو بتایا کہ اُن کے بقول امریکی ’’جارحیت‘‘ کا امکان ہمیشہ موجود رہے گا چاہے اس کا ’’بہانہ‘‘ کیمیائی ہتھیار ہوں یا ’’کچھ اور‘‘۔

شام کے صدر کی گفتگو بدھ کو دیر گئے اُس وقت نشر ہوئی جب کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق اقوام متحدہ کے معائنہ کار دوبارہ شام پہنچے جہاں وہ کیمیائی ہتھیاروں کے مبینہ حملوں کی تحقیقات کریں گے۔

سوئیڈن کے اکے سیلسٹرام کی سربراہی میں ماہرین کی ٹیم پہلے ہی اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ دمشق کے قریب 21 اگست کو ہونے والے مہلک حملے میں اعصاب شکن سیرئن گیس استعمال ہوئی۔ اقوام متحدہ کی ٹیم کے مینڈیٹ میں ذمہ داروں کی نشاندہی شامل نہیں۔
XS
SM
MD
LG