رسائی کے لنکس

برطانیہ: پناہ گزینوں کی مشکلات


عبدالغنی جیسا ہونہارطالب علم جومستقبل میں سائنسدان بننے کا خواب دیکھ رہا ہے قسمت کی ستم ظریفی پرحیران ہے اور ڈرتا ہے کہ، اسے بھی اس کے خاندان کے ساتھ ڈی پورٹ کردیا جائےگا

افغانستان سےبرطانیہ تک کا سفرکرنے والے نوجوان عبدالغنی کی کہانی ان پناہ گزینوں کی کہانیوں سے زیادہ مختلف نہیں جنھوں نے جان بچانے کی خاطر اپنے وطن سے ہجرت کی اور دیار غیر میں پناہ لینے پرمجبورہوئے ۔

لیکن اٹھارہ سالہ محمدعبدالغنی کی کہانی اس وقت خبر بن گئی جب اس نےبرطانیہ میں محض دوبرس کاعرصہ گزارنے کے بعد انگریزی زبان سےتقریبا نا بلد ہوتےہوئےبھی ہائیرسکینڈری اے لیول کے امتحان میں اسٹار اے کےساتھ کامیابی حاصل کی اوربہترین نتیجےکی بنیاد پر نہ صرف آکسفورڈ یونیورسٹی کالج میں داخلہ حاصل کیا ہےبلکہ یونیورسٹی نےعبدالغنی کےتعلیمی اخراجات پورا کرنے کے لیے وظیفہ بھی منظور کیا ہے۔

سنڈے ٹائمز میں چھپنے والی اسٹوری کے مطابق،عبدالغنی کا خاندان گذشتہ دو دہائیوں سےسفرکی حالت میں ہے جنھوں نے اس عرصے میں ایران ،شام ، پاکستان اور پھربرطانیہ میں ہجرت کی لیکن قسمت نے انھیں ایک بار پھر سے اسی موڑ پرلا کھڑا کیا ہے جہاں سے وہ چلے تھے۔ عبدالغنی نے اخبارکو بتایا کہ،ہوم آفس نے گذشتہ ماہ ان کے خاندان کی پناہ کی درخواست ناکافی شواہد کی بناء پر مسترد کردی تھی اورانھیں رضا کارانہ طور پر ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہےاگرچہ عبدالغنی کا خاندان اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق رکھتا ہے تاہم موجودہ صورت حال نےعبدالغنی کے روشن مستقبل پرسوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔

عبدالغنی کی طرح رواں برس میں ایک میٹرک کےطالب علم نجیب الحسن کو 18 سال کا ہو جانے کے بعد واپس افغانستان ڈی پورٹ کیا گیا ہے اسی لیے عبدالغنی جیسا ہونہار طالب علم جومستقبل میں سائنسدان بننے کا خواب دیکھ رہا ہے ڈرتا ہے کہ، اسے بھی اس کے خاندان کے ساتھ ڈی پورٹ کردیا جائےگا اور وہ اپنی انتھک محنت کا ثمر پانے سے محروم ہی رہ جائے گا۔

لندن کے ایک ممتازوکیل لیاقت حسین نے وائس آف امریکہ سے پناہ گزینوں کی مشکلات کے بارے میں بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ، برطانوی امیگریشن قوانین دن بدن سخت ہوتے جا رہے ہیں گذشتہ برسوں میں پناہ کے ذریعے برطانوی امیگریشن حاصل کرنے کے طریقہ کارکوکافی پیچیدہ بنا دیا گیا ہے ۔

پناہ گزین(رفیوجی) ایسےشخص کوکہتے ہیں جسے اپنے وطن میں مذہبی، لسانی ،فرقہ واریت یا سیاسی بنیاد پرجان کا خطرہ لاحق ہو اور مجبورا اسے کسی دوسرے ملک میں پناہ لینی پڑے ۔ ایسا شخص رفیوجی کےعالمی قانون 1951 کے جنیوا کنونشن کے تحت برطانیہ میں اسائلم (پناہ ) کا دعوی دائرکرسکتا ہے جس کی قانونی پہچان اسائلم سیکر کی حیثیت سے کی جاتی ہے جبکہ ،اسائلم منظور ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ،کسی شخص کو جان کے خطرے کی وجہ سے رکنے کی اجازت دی جائے ۔

پناہ مانگنے والے شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعوے کوصحیح ثابت کرےاگر کیس مضبوط نہ ہو تو ناکافی شواہد کی بنیاد پرپہلے مرحلے پر ہی کیس مسترد ہو سکتا ہےجبکہ زیادہ ترایسےکیسوں کی اپیلیں بھی مسترد ہو جاتی ہیں ۔

لیاقت حسین کا کہنا تھا کہ یورپین کورٹ آف جسٹس کے مطابق ،پناہ کی درخواست فائل کرنے والا خاندان جس کے افراد میں 18 سال سے کم عمر بچہ یا بچے ہوں ان کے لیے برطانوی امیگریشن قوانین میں نرمی موجود ہے۔ ہوم آفس ایسے خاندان کوحراست میں نہیں رکھ سکتا ہےعام طور پر بچے والے خاندانوں کو ملک بدر نہیں کیا جاتا ہے۔

"فرض کریں کہ،کسی خاندان کے سربراہ کی پناہ کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے تو انھیں اپیل کرنے کا حق دیا جاتا ہے اگر وہ بھی مسترد ہو جائے تو ایک اپیل اور دی جاتی ہے اگر دونوں اپیلیں مسترد ہو جائیں تو پھربھی یہ گنجائش باقی رہتی ہے کہ ،ہائی کورٹ میں تازہ شواہد کی بنیاد پرایک نئ اسائلم درخواست ڈالی جائے۔"

ان کا کہنا تھا کہ اگرہوم آفس تمام درخواستیں اور اپیلیں مسترد کر دیتا ہے تواس کیس کے مزید تین مرحلے آتے ہیں ۔

"سب سے پہلے ہوم آفس کیس آنرمقرر کرتا ہے جومقدمے کی کاروائی کرتا ہے فاضل ججوں میں ایک چائلڈ ویلفئیر کمیٹی کا رکن شامل ہوتا ہے جن کی تعداد پورے برطانیہ میں صرف گیارہ ہے جو یہ دیکھتا ہے کہ جس علاقے یا ملک سے بچوں کا تعلق ہے وہاں بچوں کے مرنے کی شرح کیا ہے اور سیکیورٹی کی کیا صورت حال ہے اگر وہ مطمئین ہوتے ہیں کہ خاندان کو ان کے وطن میں خطرہ نہیں ہے تو انھیں ایک مالی پیکیج کی پیشکش کی جاتی ہے جس میں ہر فرد کے لیے دو سے ڈھائی ہزار پاؤنڈ کی رقم اور ائیر لائن کا ٹکٹ وغیرہ شامل ہوتا ہے تاکہ وہ واپس جا کراپنے وطن میں نئی زندگی شروع کر سکیں ۔"

اگر وہ اس پیشکش کو قبول نہیں کرتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ ، وہ رضا کارانہ طور پر برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن لوٹ جائیں اگر وہ اس پر بھی راضی نہ ہوں تو پھر انھیں ائیر پورٹ سےنزدیک فرینڈلی رہائشگاہ میں ٹھہرایا جاتا ہے جہاں سے انھیں ملک بدر کر دیا جاتا ہے ۔

"یوں سمجھ لیں کہ، اس ساری کاروائی میں اتنا زیادہ وقت لگ جاتا ہے کہ ،اگراس عرصے میں خاندان کا برطانیہ میں پیدا ہونے والا بچہ سات سال کا ہو جائے تو بچے کی بنیاد پرپھرسے ایک نئی درخواست دائر جا سکتی ہے ۔"

لیاقت حسین نے بتایا کہ "ہوم آفس کی ایک پالیسی 8699 ہوا کرتی تھی جس کے تحت برطانیہ میں پیدا ہونے والا بچہ جو سات برس تک برطانیہ میں رہتا تھا اس کے پورے خاندان کو انڈیفینٹ(مستقل رہائش) اسٹیٹس مل جاتا تھا لیکن 9 دسمبر 2009 میں اس پالیسی کو واپس لے لیا گیا اور اس کی جگہ یورپی کنونشن آن ہیومن رائٹسECHR) )کے آرٹیکل 8 کو شامل کیا گیا ہے ۔"

اب جنھیں ہوم آفس اسائلم اور ہیومن رائٹس کی بنیاد پر اہل نہیں سمجھتا ہے انھیں چھوٹے بچوں کی بنیاد پر تین سال کے لیے عارضی رہائش کی صوابدیدی اجازت(Discretionary leave) دی جاتی ہے جس کے بعد تین سال کی اور اجازت دے دی جاتی ہے تب جا کروہ انڈیفینٹ کی درخواست ڈالنے کے اہل قرارپاتے ہیں ۔

لیکن جولائی 2012 میں ہوم آفس نے ڈسکریشنری لیو کےدورانیہ کوکم کرکےڈھائی برس کا کر دیا ہے اب فیملی روٹ کے دس برس مکمل کرنے والوں کوچار بارڈیسکریشنری لیوکی درخواست جمع کرنی ہوتی ہےجس کےبعدانڈیفینٹ کی درخواست دی جاسکتی ہےلیکن اس قانون پرہائی کورٹ نے شدید اعتراض کیا ہےاور اسےغیرقانونی قراردیا ہے جبکہ ،جلد ہی ہائی کورٹ اس قانون سے متعلق اپنا فیصلہ سنانے والی ہے جس کے بعد فیملی قوانین میں مزید نرمی آسکتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ، برطانیہ میں اسائلم کے قوانین ایک تنہا شخص کے لیے کافی سخت ہیں حتی کہ ،اسائلم فائل کرنے والے میاں بیوی کی درخواستیں بھی زیادہ تر مسترد کر دی جاتی ہیں اوراکثرانھیں اپیل کا حق بھی نہیں دیاجاتا ہے لیکن اپیل نہ ہونے کے بعد بھی ہائی کورٹ سےجوڈیشل نظر ثانی کی درخواست کی جاسکتی ہے۔

ایسے کیسوں میں اسائلم سیکرز کی درخواست مسترد ہو جانے پرانھیں زیرحراست رکھا جاتا ہے اوران کے کیس کی کارروائی ڈیٹین فاسٹ ٹریک DFT کےتحت کی جاتی ہےجہاں بمشکل چھ سے آٹھ ہفتوں میں تمام کارروائی نمٹا کر انھیں ڈی پورٹ کردیاجاتا ہے ۔

لیاقت حسین کا کہنا تھا کہ ،برطانیہ میں ہیومن رائٹس کی درخواستیں زیادہ تر یورپی کنونشن کے آرٹیکل 2,3 5اور آرٹیکل8 کے تحت جمع کرائی جاتی ہیں جبکہ یورپی کنونشن کاآرٹیکل 8 (پرائیوٹ اینڈ فیملی لائف کا تحفظ) کا قانون خاندان کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔

"جہاں تک اسائلم سیکرز کو اسپانسر کرنے کا تعلق ہےتوبرطانوی شہری ایسا نہیں کر سکتا ہےالبتہ یورپی یونین ملکوں سے تعلق رکھنے والا قریبی عزیزچاہے توا سے اسپانسر کرسکتا ہے یا پھر برطانوی شہری یا یورپی ممالک کی لڑکی سے شادی کرنے پر اسے ڈی پورٹ نہیں کیا جا سکتا ہےلیکن یہ شادی حقیقی ہونی چاہیے۔"

لیاقت حسین نےعبدالغنی کے کیس کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ،چونکہ اس خاندان میں عبدالغنی کے علاوہ 18 برس سے کم عمر دو چھوٹے بچے بھی شامل ہیں لہذا انھیں ڈی پورٹ کرنےکاامکان بہت کم ہیں اگرعبدالغنی دلبرداشتہ ہو کرواپس افغانستان چلا جاتا ہے اوراسٹوڈنٹ ویزا اپلائی کرتا ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ ، اسے ویزا نہیں مل سکےگا اسے چاہیے کہ وہ برطانیہ میں رہتے ہوئےاپنا کیس لڑے ۔
XS
SM
MD
LG