رسائی کے لنکس

بحرین:معاملات سلجھانے کے لیے مذاکرات پر اتفاق


بحرین:معاملات سلجھانے کے لیے مذاکرات پر اتفاق
بحرین:معاملات سلجھانے کے لیے مذاکرات پر اتفاق

بحرین کے سنّی حکمراں حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہونے کے بعد پہلی بار اس ہفتے حزبِ اختلاف کے لیڈروں کے ساتھ مذاکرات کے لیے بیٹھیں گے ۔ سال کے شروع میں جب حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو کاروبارِ زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ ان مذاکرات میں سیاسی، اقتصادی اور سماجی مسائل زیرِ بحث آئیں گے۔

ابتدا میں کچھ تامل کے بعد، حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی، الوفاق نے تصدیق کر دی کہ وہ قومی ڈائیلاگ میں حصہ لے گی۔ فروری میں جب جمہوریت کے حامی مظاہرین کے خلاف خونریز کارروائی کی گئی، تو اس بلاک کے اٹھارہ ارکان پارلیمینٹ کو چھوڑ گئے تھے ۔ حکومت نے حالیہ ہنگاموں پر جس طرح قابو پانے کی کوشش کی ہے، اس گروپ نے اس پر شدید تنقید کی ہے۔

قومی ڈائیلاگ کے ترجمان، عیسیٰ عبد الرحمٰن کہتے ہیں کہ الوفاق کی شرکت اس بات کی واضح علامت ہے کہ پائیدار سمجھوتہ ممکن ہے ۔’’ہم پُر امید ہیں کہ کوئی بیچ کی راہ نکل آئے گی۔ میرا خیال ہے کہ اتفاقِ رائے کا طریقہ ٔ کار ایسی علامت ہے کہ ہم ایک قوم کی حیثیت سے آگے بڑھ رہے ہیں اور مختلف سیاسی پارٹیوں اور مختلف مفادات کے درمیان کوئی راہ تلاش کرنا ممکن ہوگا۔‘‘

بحرین کی شیعہ اکثریت نے فروری کے وسط میں، تیونس اور مصر کی تحریکوں کے بعد احتجاج منظم کیے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے ، اور انہیں وہ حقوق اور فوائد نہیں دیے جاتے جو حکمران سنی اقلیتوں کو حاصل ہیں۔

ان کے اصل مطالبات یہ ہیں کہ نیا آئین بنایا جائے، زیادہ نمائندہ حکومت قائم کی جائے، سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے، امتیازی سلوک ختم کیا جائے اور غیر ملکیوں کو شہریت کے حقوق دینے کا سلسلہ بند کیا جائے۔

خیال ہے کہ قومی ڈائیلاگ کی میٹنگز میں ان مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے گی ۔ یہ میٹنگز ہفتے میں تین بار ہوں گی۔ توقع ہے کہ مذاکرات ایک مہینے تک جاری رہیں گے، لیکن رحمٰن کہتے ہیں کہ ان کے خاتمے کی کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے۔’’ہم اس ڈائیلاگ کے لیئے پہلے سے وقت کی کوئی حد مقرر نہیں کریں گے۔ ہم شرکاء پر دباؤ ڈالنا نہیں چاہتے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ تمام مسائل پر آرام اور سکون سے تبادلۂ خیال کریں اور اتفاقِ رائے حاصل کرنے کے لیے جتنا وقت ضروری ہو، صرف کریں۔‘‘

قومی ڈائیلاگ کے ترجمان عیسیٰ عبدالرحمن
قومی ڈائیلاگ کے ترجمان عیسیٰ عبدالرحمن

بین الاقوامی برادری نے بحرین کے مصالحت کے مذاکرات کا وسیع پیمانے پر خیر مقدم کیا ہے ۔ منگل کے روز، اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنی حمایت کا اعلان کیا اور بحرین کے حکام پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مزید اقدامات کریں۔ لیکن بعض لوگوں نے شکوک و شبہات کا اظہار بھی کیا ہے۔

فروری میں الوفاق کے جن 18 ارکان نے پارلیمینٹ کو چھوڑا تھا، ان میں جلال فیروز بھی شامل تھے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں ایسی اہم تبدیلیاں ہونے کا امکان بہت کم ہے جو حزب اختلاف کو مطمئن کرنے کے لیے ضروری ہیں۔’’اس مسئلے کا حل بادشاہ اور شاہی خاندان کے ہاتھوں میں ہے ۔ یہ ڈائیلاگ سے حل نہیں ہو گا۔ اس میں صرف چِٹ چیٹ ہوگی، اور آخر میں تمام چیزیں بادشاہ کے سامنے رکھی جائیں گی۔ بادشاہ یہ طے کریں گے کہ وہ کیا چیز منظور کر سکتے ہیں اور کیا منظور نہیں کر سکتے۔ اس بات چیت کی سب سے بڑی کمزوری یہی ہے۔‘‘

بحرین کے حکام کا کہنا ہے کہ حزبِ اختلاف کے احتجاج کے دوران، فروری اور مارچ میں 24 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بین الاقوامی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد 30 کے قریب ہے۔

بدھ کے روز، نیو یارک میں قائم تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بحرین پر حزب ِ اختلاف کے حامیوں کے خلاف تشدد اور ظلم کی مسلسل مہم جاری رکھنے کا الزام عائد کیا اور مطالبہ کیا کہ ان زیادتیوں کو روکا جائے۔

XS
SM
MD
LG