رسائی کے لنکس

بلوچستان میں ’شدت پسندی‘ سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں: صوبائی حکومت


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بلوچستان کی حکومت کے ترجمان جان محمد بُلیدی کا کہنا تھا کہ ’ایچ آر سی پی‘ کی رپورٹ میں بعض حقائق نہیں بتائے گئے۔

پاکستان میں حقوق انسانی کی صف اول کی ایک تنظیم ’ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان‘ نے کہا کہ بلوچستان میں کالعدم مذہبی تنظیمیں جڑ پکڑ رہی ہیں جو ایک تشویشناک امر ہے۔

تاہم بلوچستان کی حکومت کے ترجمان جان محمد بُلیدی نے پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ مذہبی انتہا پسندی صرف بلوچستان ہی کا نہیں بلکہ ملک بھر کا مسئلہ ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ صوبائی حکومت بلوچستان میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

’’یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ 100 فیصد قابو پا لیا ہے لیکن اگر (شدت پسندی) کے جو واقعات پہلے ہوئے ہیں اُن سے موازنہ کیا جائے تو اُن میں بہت کمی آئی ہے۔‘‘

جان بُلیدی کا کہنا تھا کہ پورے ملک میں فرقہ واریت کا مسئلہ ہے۔ اُنھوں نے اعتراف کیا کہ بلوچستان میں بعض اوقات ایران کے راستے عراق جانے والے شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے، تاہم اُن کے بقول اس ضمن میں بھی صورت حال میں بہتری آ رہی ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق بلوچستان میں مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے جن میں ہزارہ شعیہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کے علاوہ صوبے میں آباد ہندو برادری کے لوگ بھی شامل ہیں۔

ہیومین رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف نے اتوار کو کوئٹہ میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں امن و امان کی صورت حال میں کچھ بہتری آئی ہے لیکن صوبائی حکومت کو ناراض بلوچ رہنماﺅں سے مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت حاصل نہیں ہوئی۔

بلوچستان کی حکومت کے ترجمان جان محمد بُلیدی کا کہنا تھا کہ ’ایچ آر سی پی‘ کی رپورٹ میں بعض حقائق نہیں بتائے گئے۔ اُن کے بقول بلوچ ترقی پسندانہ سوچ کے حامل لوگ ہیں اور صدیوں سے اُن کا رویہ اسی سوچ کی عکاسی کرتا آیا ہے۔

پاکستان کا یہ جنوب مغربی صوبہ گزشتہ ایک عشرے سے زائد عر صے سے شورش اور بدامنی کا شکار رہا ہے اور یہاں کے ناراض بلوچ نوجوانوں کی عسکری تنظیمیں اکثر و بیشتر سکیورٹی فورسز کے علاوہ دوسرے صوبوں سے آنے والے لوگوں کو نشانہ بناتی رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG