رسائی کے لنکس

لاپتا افراد: فیکٹ فائنڈنگ مشن بلوچستان روانہ


لاپتا افراد: فیکٹ فائنڈنگ مشن بلوچستان روانہ
لاپتا افراد: فیکٹ فائنڈنگ مشن بلوچستان روانہ

پروفیسر مہدی حسن نے صورتِ حال کو بہتر بنانے اور حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت کو دی جانے والی تجاویز اور سفارشات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اِس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وساطت سے مجرموں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی ضرورت ہے

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بلوچستان میں لوگوں کی گمشدگی، ہدف بنا کر کی جانے والی ہلاکتوں اور دوسرے مسائل کی وجوہات کا پتا چلانے کے لیے ایک ’فیکٹ فائنڈنگ مشن‘ مکمل کیا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق چیرمین اور مشن کے وفد میں شامل پروفیسر مہدی حسن نے اپنے اِس مشن کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ یہ تیسرا چوتھا مشن ہے۔

’دو مسئلے ہمارے زیرِ غور ہیں۔ ایک، ہم آہنگی پیدا کرنا۔ ہمیں اِس وقت دو طرح کی تشویش لاحق ہے۔ ایک بہت سنجیدہ مسئلہ ہے جو لاپتا ہونے والے لوگوں کے معاملے سے متعلق ہے۔ اُس کے بعد نئی روداد یہ ہے کہ اُن کی لاشیں ملنے لگی ہیں۔ جس کی ذمہ داری کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بلوچستان کی صوبائی حکومت کا اِس معاملے میں ہمیں کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا۔ پولیس بھی یہی کہتی ہے۔‘اِس سلسلے میں، اُنھوں نے بتایا کہ مشن نے ہفتے کے دِن بلوچستان کےانسپیکٹر جنرل سے بھی ملاقات کی ہے۔

پروفیسر مہدی حسن نے صورتِ حال کو بہتر بنانے اور حالات پر قابو پانے کے لیے حکومت کو دی جانے والی تجاویز اور سفارشات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اِس سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی وساطت سے مجرموں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے کی ضرورت ہے۔

اُن کے الفاظ میں: ’یہی مطالبہ ہم نے پھر کیا ہے کہ آپ اگر فوجی، ایجنسیز کو ملوث کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پولیس کے بس کی بات نہیں ہےاور فوج کی یا فرنٹیئر کور (ایف سی) کی ضرورت ہے، (تو پھر) اُن کو سول ایڈمنسٹریشن کے ماتحت کام کرنا چاہیئے۔ اور اگر کسی کو پکڑتے ہیں تو اُسے پولیس کے حوالے کرنا چاہیئے اور پھر پولیس کا کام یہ ہے کہ وہ اُس سے باقاعدہ کیس رجسٹر کرے ، اُسے عدالت میں پیش کرے۔‘

برسرِ اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے رکن بسم اللہ کاکڑ نے کمیشن کی رپورٹ پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اِس سلسلے میں اقدام کرتی آرہی ہے۔ اُن کے الفاظ میں: ’یہ سوال بنیادی طور پر اِس بات سے متعلق تھا کہ بعض ادارے، بعض ایجنسیاں ایسی ہیں جو حکومت، عدالت، صوبائی حکومت سب کے واضح مؤقف کے باوجود بھی لوگوں کو اُٹھاکر لے جاتےہیں۔ اُن کو مسنگ پرسنز بتاتے ہیں۔ ’

بسم اللہ کاکڑ نے اِس یقین کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت اِس حوالے سے مؤثر اقدامات کرے گی۔

ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے بینچ کا واضح حکم ہے کہ جِس کسی جرم یا نوعیت کا جرم ہو اُس مجرم کو پولیس کے حوالے کریں اور مقدمہ بناکر عدالت کی طرف سے جو بھی سزا ہے (وہ دلوائیں)۔ یہ جو مسنگ پرسنز کی اسطلاح ہے بدقستمی سے بلوچستان، بلکہ اب تو پورے پاکستان میں مسئلہ (بن چکا ہے) اِسے ختم ہونا چاہیئے۔‘

اُن سے پوچھا گیا کہ کیا اُن کی دانست میں وفاقی حکومت کی سطح پر بلوچستان کے عوام کے تحفظات کو دور کرنے کے لیے کوشش ہورہی ہے، جس پر اُنھوں نے کہا کہ ’بلوچستان کے عوام یا حکومت کہتی ہے کہ سوائے علیحدگی کے، ہم ہر موضوع پر بات کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے مطالبات، ان کے حقوق تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔‘

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG