رسائی کے لنکس

بلوچستان میں حالات ’بد سے بدتر‘


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدیوں اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے واقعات مسلسل جاری ہیں۔

انسانی حقوق کے تحفظ کی صف اول کی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان ’ایچ آر سی پی‘ نے رواں سال مئی میں بلوچستان کا دورہ کرنے کے بعد صوبے کے حالات کے بارے میں ’’امید، خوف اور بیگانگی‘‘ کے عنوان سے ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں جمعرات کو رپورٹ کے اجراء کے موقع ایچ آر سی پی کی سربراہ زہرہ یوسف نے کہا کہ بلوچستان میں جبری گمشدیوں اور لاشوں کو ٹھکانے لگانے کے واقعات مسلسل جاری ہیں، جن سے امن و امان کی صورت حال بد سے بدتر ہو رہی ہے۔

اُنھوں نے کہا صوبے کے عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ نیم فوجی فرنٹیئر کور اور فوج کی انٹیلی جنس ایجنسیاں جبری گمشدیوں اور بلوچوں پر تشدد کرکے اُنھیں ہلاک کرنے کے واقعات میں ملوث ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مصدقہ اعداد و شمار کے مطابق جبری گمشدیوں کی مجموعی تعداد 198 ہو چکی ہے، جن میں سے 20 افراد رواں سال لاپتا ہوئے۔ تاہم بعض بلوچ قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ لاپتا ہونے والے افراد کی تعداد 700 سے زائد ہے۔
پختون آبادی، ہزارہ برادری، غیر مسلموں، آباد کاروں اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی روزگار کے مسائل پر ہمدردانہ غور کی ضرورت ہے۔
ایچ آر سی پی


کمیشن کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اغواء برائے تاوان ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے، اور تاحال ایک بھی مجرم کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔

’’پختون آبادی، ہزارہ برادری، غیر مسلموں، آباد کاروں اور اس کے ساتھ ساتھ معاشی روزگار کے مسائل پر ہمدردانہ غور کی ضرورت ہے۔‘‘

بلوچستان کے بارے میں رپورٹ کے اجراء کی تقریب میں حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر افراسیاب خٹک بھی موجود تھے، جنھوں نے جبری گمشیدیوں کے خاتمے اور بلوچستان میں دیرپا قیام امن کے لیے تشدد کے واقعات میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
اسلام آباد میں پارلیمان کی عمارت
اسلام آباد میں پارلیمان کی عمارت

’’یہ قانون لایا جائے کہ جو ذمہ دار ہوں ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں۔ ابھی تک کسی کو یہ ڈر نہیں کہ اس کے خلاف کارروائی ہوگی، اس لیے وہ بار بار یہ کرتے ہیں۔ پانچ آدمیوں پر بھی مقدمات چلیں تو یہ سلسلہ تھم جائے گا۔‘‘

سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا کہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نگرانی کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے۔

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے بلوچستان میں بدامنی کے بارے میں مقدمات کی سماعت سے صورت حال میں بہتری آئی ہے۔

تنظیم نےسفارش کی ہے کہ آئندہ انتخابی عمل کو شفاف بنا کر بلوچستان کے ترقی پسند حلقوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے، جس سے حالات میں بہتری اور لاقانونیت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔

’’قوم پرست اگر حکومت کا حصہ بنیں تو معاملات بہتری کی طرف چل سکیں گے۔ تاہم لاقانونیت نے قوم پرست جماعتوں کے لیے انتخاب کی تیاری مشکل بنا دی ہے کیوں کہ ان میں سے بہت سی جماعتوں کا حلقہ انتخاب شورش زدہ اضلاع میں ہے۔‘‘

ایچ آر سی پی کے مطابق بلوچستان کے حالات سے آگاہی کے لیے کمیشن کے دورے کے دوران کئی مثبت تبدیلیاں بھی سامنے آئی ہیں۔

’’نوجوان اور سیاسی کارکن گفتگو اور مذاکرات میں شمولیت کے ذریعے بحران کا سیاسی حل ڈھونڈے کے لیے پرجوش ہیں۔‘‘
بلوچستان میں امن و امان برقرار رکھنے کی بنیادی ذمہ داری فرنٹیئر کور کے ہاتھ میں ہے۔
بلوچستان میں امن و امان برقرار رکھنے کی بنیادی ذمہ داری فرنٹیئر کور کے ہاتھ میں ہے۔

بلوچستان میں فرنٹیئر کور اور انٹیلی جنس ایجنسیاں جبری گمشدیوں میں ملوث ہونے کی کئی بار تردید کر چکی ہیں اور حال ہی میں ایف سی بلوچستان نے سپریم کورٹ میں اپنے ایک تحریری بیان میں کہا تھا کہ شدت پسند عناصر فرنٹیئر کور کی وردیاں زیبِ تن کر کے حملوں میں ملوث پائے گئے ہیں جس کا مقصد سلامتی سے متعلق قومی اداروں کو بدنام کرنا ہے۔
XS
SM
MD
LG