رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش میں جبری گمشدیوں میں اضافہ


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

شیخ حسینہ کی زیر قیادت عوامی لیگ کے 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے جبری لاپتا کیے جانے کے الزامات میں اضافہ ہوا ہے۔

ڈھاکہ کا روحیل امین پچھلے چار سال ے اپنے لاپتا بیٹے کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔

اس کے بیٹے محمد امام حسن کو 2012 میں جرائم پیشہ افراد نے اغوا کیا تھا۔ اگلے ہی روز بنگلہ دیش کی خصوصي فورس RAB نے اسے برآمد کر لیا ۔ لیکن وہ کبھی گھر واپس نہیں پہنچا اور بدستور پیرا ملٹری فورس کی حراست میں رہا۔

روحیل امین ایک چھابڑی والا ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ RAB کے اہل کاروں نے بیٹے کی رہائی کے لیے ایک لاکھ ٹکہ رشوت مانگی تھی۔ میں ایک غریب آدمي ہوں۔ بمشکل 40 ہزار کا بندوبست کر سکا ۔ RAB والوں نے وعدہ کیا کہ اس کا بیٹا چند روز میں اپنے گھر پہنچ جائے گا۔ لیکن وہ آج تک نہیں آیا۔

وہ کہتے ہیں کہ میں حکومتی اداروں کے پاس گیا۔ ہائی کورٹ میں گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے پاس گیا۔ لیکن کسی نے میری مدد نہیں کی۔ میں نہیں جانتا کہ وہ کہاں ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ زندہ ہے بھی یا نہیں۔

حسن وہ واحد شخص نہیں ہے جو بنگلہ دیش میں لاپتا ہوا ہے۔ اور اس کی گمشدگی اس ملک میں رونما ہونے والا پہلا ایسا واقعہ نہیں ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق حالیہ برسوں میں سینکڑوں لوگوں کو زبردستی اغوا کیا جا چکا ہے۔

لاپتا ہونے والوں میں سے کچھ تو اپنے گھروں کو زندہ واپس آگے تھے۔ کچھ لوگوں کئی مہینوں یا برسوں کے بعد ان کی نعشیں ملیں جنہیں مختلف وقتوں میں مختلف سیکیورٹی ایجنسیوں کے اہل کار اٹھا کر لے گئے تھے۔ لیکن بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ابھی تک لا پتا ہیں۔

بنگلہ دیش کے انسانی حقوق کے گروپ اودھکار کے مطابق پچھلے پانچ برسوں کے دوران حکومتی ایجنسیوں نے کم از کم 298 لوگوں کو زبردستی اٹھایا، جن میں سے 138 اپنے گھروں کو لوٹ آئے، 39 کی نعشیں ملیں جب کہ 121 افراد کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔

بنگلہ دیش کے انسانی حقوق کے ایک اور گروپ ASK کے مطابق اس سال جنوری سے ستمبر کے دوران کم ازکم 70 افراد کو زبردستی اٹھایا گیا۔ یہ تعداد پچھلے سال لاپتا ہونے والے 55 افراد کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ ہے۔

شیخ حسینہ کی زیر قیادت عوامی لیگ کے 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے جبری لاپتا کیے جانے کے الزامات میں اضافہ ہوا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ لاپتا ہونے والے افراد میں سے نصف حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل ایک جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے عہدے دار اور کارکن ہیں۔

حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔

جب تک گم شدہ افراد کے خاندانوں کو اپنے پیاروں کے بارے میں پتا نہیں چل جاتا، روحیل امین اور ان جیسے دوسرے لوگ اپنے بیٹوں اور عزیزوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے رہیں گے۔

XS
SM
MD
LG