رسائی کے لنکس

بنگلہ دیش: جماعتِ اسلامی کے امیر کی سزائے موت برقرار


جماعت اسلامی کے رہنما مطیع الرحمن نظامی (فائل)
جماعت اسلامی کے رہنما مطیع الرحمن نظامی (فائل)

مطیع الرحمن نظامی کو 1971ء میں ہوئی جنگ میں نسل کشی، تشدد، جنسی زیادتی اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہونے کے جرم میں اکتوبر 2014ء میں خصوصی ٹربیونل نے سزائے موت سنائی تھی۔

بنگلہ دیش کی عدالت عظمیٰ نے بدھ کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی و مذہبی جماعت کے رہنما کو جنگی جرائم میں سنائی گئی سزائے موت کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے جماعت اسلامی کے رہنما مطیع الرحمن نظامی کی طرف سے سزا کے خلاف دائر کی گئی اپیل کو مسترد کر دیا جس کے بعد ان کی سزائے موت پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

ایک دور میں حکومتی وزیر رہنے والے سیاسی رہنما کو 1971ء میں ہوئی جنگ میں نسل کشی، تشدد، جنسی زیادتی اور املاک کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہونے کے جرم میں اکتوبر 2014ء میں خصوصی ٹربیونل نے سزائے موت سنائی تھی۔

اس جنگ کے نتیجے میں پاکستان کا مشرقی حصہ کہلوانے والا علاقہ بنگلہ دیش کی صورت میں ایک آزاد ریاست بن کر ابھرا تھا۔

بنگلہ دیش کا دعویٰ ہے کہ اُس وقت پاکستانی فوج کے ساتھ ملک کر یہاں کے شریک کاروں نے تقریباً تیس لاکھ لوگوں کو ہلاک، دو لاکھ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور ایک کروڑ لوگوں کو بے گھر ہوکر پڑوسی ملک بھارت میں خیموں میں پناہ لینا پڑی۔

بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی اس علیحدگی کے خلاف تھی۔

ملک کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے 2010ء میں جنگی جرائم کے مقدمات کے لیے خصوصی ٹربیونلز تشکیل دیے تھے جس سے اب تک ایک درجن سے زائد حزب مخالف کے رہنماؤں کو سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔

حزب اختلاف ٹربیونلز کی کارروائی یہ کہہ کر مسترد کرتے ہیں کہ حکومت مبینہ طور پر اپنے مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے ان مقدمات کو استعمال کر رہی ہے۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے ان ٹربیونلز کی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا جا چکا ہے کہ یہ کارروائیاں بین الاقوامی معیار سے مطابقت نہیں رکھتیں۔

XS
SM
MD
LG