رسائی کے لنکس

سندھ کے بیراج اور ان کی سیلابی صورتحال


سکھر بیراج
سکھر بیراج

پاکستان کی تاریخ کا بد ترین سیلاب صوبہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے وسطی و جنوبی علاقوں کو تاراج کرنے کے بعد جمعرات کے روز سندھ کی حدود میں داخل ہو گیا ہے۔ اس وقت دریائے سندھ میں کئی مقامات پر اونچے درجے کا سیلاب ہے اور دریا کے ساتھ واقع کئی دیہاتوں کے زیرِ آب آنے کی اطلاعات ہیں۔ صوبہ کی حدود میں بہنے والے دریائے سندھ کی لمبائی 870 کلو میٹر ہے جس پر تین بیراج تعمیر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ان تینوں بیراجوں کا مختصر تعارف اور وہاں کی موجودہ اور آنے والے دنوں میں بننے والی سیلابی صورتحال کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے۔

1۔ گڈو بیراج

دریائے سندھ کے صوبہ کی حدود میں داخلے کے مقام سے کچھ ہی فاصلے پہ قائم گڈو بیراج کشمور سے دس میل جبکہ سکھر سے 90 میل اپ اسٹریم پر واقع ہے۔ 1962 میں مکمل ہونے والے اس بیراج کی لمبائی 4450 فٹ (1356 میٹر) ہے۔ انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق گڈو بیراج میں 64 دروازے ہیں جن میں ہر ایک کی چوڑائی 60 فٹ (18 میٹر) تک ہے۔ بیراج سے نکلنے والی نہروں کے ذریعے بالائی سندھ کے اضلاع جیکب آباد، لاڑکانہ، سکھر اور بلوچستان کے نصیرآباد ضلع کی 31 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی سیراب کی جاتی ہے۔ صوبائی محکمہ آبپاشی کے حکام کے مطابق گڈو بیراج 26 فٹ (8 میٹر) تک اونچے اور 12 لاکھ کیوسک مقدار تک کے سیلابی ریلے کو روکنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تاہم تعمیرات پرانی ہونے اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس صلاحیت میں کمی آچکی ہے۔

گڈو بیراج پہ سیلابی صورتحال

سندھ حکومت کے مطابق دریائے سندھ سے گڈو بیراج کے مقام پر اس وقت آٹھ لاکھ کیوسک سے زائد پانی کا سیلابی ریلا گزر رہا ہے جبکہ سیلابی پانی کا بہاؤ آج رات کسی وقت یا کل صبح تک نو سے دس لاکھ کیوسک کی بلند ترین سطح تک پہنچ جائے گا۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے جمعرات کے روز جاری ہونے والی نئی فلڈ وارننگ میں گڈو کے مقام پر انتہائی بلند درجے کے سیلاب کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ادارے کی جانب سے سیلاب سے خیرپور، جیکب آباد، صادق آباد، شکارپور، گھوٹکی اور سکھر کے اضلاع کے نشیبی علاقے زیرِ آب آنے کا خدشہ ظاہر کیے جانے کے بعد مذکورہ علاقوں میں موجود فوجی دستوں اور حکومتی و امدادی اہلکاروں کو ریڈ الرٹ کردیا گیا ہے۔

گڈو بیراج
گڈو بیراج

دریائے سندھ میں ڈاؤن اسٹریم پر سیلابی ریلے کا زور توڑنے کے لیے سندھ انتظامیہ کی جانب سے بیراج سے نکلنے والی تمام چھوٹی بڑی نہروں کو دریا سے پانی فراہم کرنے والے بند کھول دیے گئے ہیں اور اس وقت تمام نہروں، بشمول گھوٹکی فیڈر، بیگاری فیڈر، ڈیزرٹ فیڈر اور پٹ فیڈر، میں پانی انتہائی سطح پر بہہ رہا ہے۔ علاقہ مکینوں کے آنکھوں دیکھے حال کے مطابق سالوں کی خشک سالی کے باعث دریا اور نہروں کے حفاظتی پشتے کمزور پڑ چکے ہیں اور بالائی سندھ کی شدید گرمی کے باٰعث کئی مقامات پر پشتوں میںپٹرنے والی دراڑوں کے سبب پانی کے زیادہ بہاؤ کی صورت میں کمزور مقامات پر کسی وقت بھی شگاف پڑنے اور ملحقہ علاقے زیرِآب آنے کا خدشہ موجود ہے۔ حکام کے مطابق صوباِئی حکومت کے محکمہ آبپاشی کے اہلکار 24 گھنٹے دریا کے حفاظتی پشتوں کی نگرانی پہ مامور ہیں۔

بیراج پر پانی کا دباؤ بڑھنے کی صورت میں حفاظتی بند بھی توڑے جاسکتے ہیں جس سے وسیع رقبہ زیرِ آب آنے کا خدشہ موجود ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں کسی قسم کے جانی نقصان سے بچنے کی غرض سے ممکنہ متاثرہ علاقوں سے بڑے پیمانے پر دیہی آبادی کی نقل مکانی اس ہفتے کے آغاز ہی سے جاری ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق دس لاکھ سے زائد لوگوں کو دریا کے ساتھ واقع نشیبی علاقوں سے محفوظ مقامات پر قائم عارضی کیمپوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔

حکومت سندھ کے ذرائع کے مطابق دریا کے بالائی حصے میں پانی کی انتہائی بلند سطح کےباعث گڈو بیراج کے ساتھ واقع کئی دیہات زیرآب آچکے ہیں جہا ں کے مکینوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جارہا ہے۔ دریا کے ساتھ موجود خیرپور کی تحصیل کنگری کے بھی بیس سے زائد دیہات زیرآب آچکے ہیں، جبکہ دریا کے دونوں کناروں پر واقع کچے کے علاقے کے زیرِ آب آنے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔ نیز بالائی سندھ کے اضلاع قمبر، شہدادکوٹ اور لاڑکانہ میں جاری مون سون کی شدید بارشوں سے بھی صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے اور کئی علاقے برساتی پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران لاڑکانہ میں 131 ملی میٹر اور ملحقہ جیکب آباد میں 39 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی جاچکی ہے۔

2۔ سکھر بیراج

دریائے سندھ پہ موجود دوسرا اور سب سے بڑا بیراج بالائی سندھ کے سب سے بڑے شہر سکھر کے ساتھ واقع ہے۔ انسائکلو پیڈیا برٹینیکا کے مطابق برطانوی نوآبادیاتی دور میں لوائڈ بیراج کے نام سے جانے والے اس بیراج کی تعمیر جنوری 1932 میں مکمل ہوئی، جبکہ اس کی بحالی کا کام جولائی2005 میں مکمل ہوا جس کے بعد ماہرین کے مطابق یہ بیراج مزید 60 سے 70 سال تک پانی کے ذخیرے اور تقسیم کے مقاصد بخوبی پورا کرسکتا ہے۔ ایک میل (تقریباً 5000 فٹ) طویل اس بیراج میں 66 دروازے ہیں۔ جبکہ اس سے نکلنے والی سات بڑی نہریں تقریباً 50 لاکھ ایکڑ رقبے کو سیراب کرتی ہیں جو رقبے کی طوالت کے باعث دنیا کے چند بڑے آبپاشی کے نظاموں میں سے ایک ہے۔ بیراج سے نکلنے والی چند نہریں اپنی لمبائی اور پانی کے زیادہ سے زیادہ بہاؤ کی مقدار کے حساب سے مشہورِ زمانہ سوئز کینال سے بھی بڑی ہیں۔

سکھر بیراج پر سیلاب کی صورتحال

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے اعلامیہ کے مطابق سکھر بیراج کے مقام پر اس وقت درمیانے درجے کا سیلاب ہے۔ کل کسی وقت بیراج سے چھ لاکھ کیوسک کا ابتدائی سیلابی ریلا گزرے گا جس کے بعد ہفتہ کے روزاس مقام پر نو سے دس لاکھ کیوسک کی مقدار کا شدید سیلاب ہوگا۔ محکمہ موسمیات کی ایڈوائزری کے مطابق شدید سیلابی ریلے کے باعث دادو، سکھر، لاڑکانہ، نواب شاہ، حیدرآباد اور نوشہروفیروز اضلاع کے دریا کے کناروں کے ساتھ واقع کچے کے علاقے کے زیرِ آب آنے کا خدشہ ہے۔

اس وقت بیراج سے نکلنے والی تمام ساتوں نہریں، باِئیں کنارے پر واقع نارا کینال، میرواہ کینال، روہڑی کینال، ابولواہ کینال جبکہ دائیں کنارے کی دادو کینال، رائس کینال اور کیرتھر کینال میں پانی کا بہاؤ معمول سے زیادہ ہے، جبکہ روہڑی کینال، جو عام حالات میں بھی اپنی زیادہ سے زیادہ مقدار میں بہتی ہے، میں پانی خطرے کی حد سے ذرا نیچے بہہ رہا ہے۔ حکام کے مطابق مذکورہ نہروں میں کل رات کسی وقت بیراج میں آنے والا سیلابی ریلے کا پانی تقسیم کردیا جائے گا جس کے بعد ان نہروں میں پانی کی مقدار خطرناک حد تک پہنچنے کے باعث ملحقہ دیہاتوں کے زیرِ آب آنے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔

3۔ کوٹری بیراج

1955 میں تعمیر ہونے والا کوٹری بیراج دریائے سندھ پر قائم آخری بیراج ہے جس کے بعد ہزاروں میل کا سفر طے کرنے والا یہ دریا انڈس ڈیلٹا تخلیق کرتے ہوئے بحیرہ عرب میں جا گرتا ہے۔ سندھ کے ماضی کے دارالحکومت اور دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے ساتھ واقع 3000 فٹ (900 میٹر) طویل کوٹری بیراج، غلام محمد بیراج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس بیراج سے نکلنے والی چار نہروں کے ذریعے زیریں سندھ کا 28 لاکھ ایکڑ زرعی رقبہ سیراب کیا جاتا ہے۔ اسی بیراج سے نکلنے والی ایک نہر کلری کینال پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی شہہ رگ کراچی کو اضافی پانی فراہم کرتی ہے۔

کوٹری بیراج پر سیلاب کی صورتحال

حکام کے مطابق کوٹری بیراج پر اس وقت نچلے درجے کا سیلاب ہے جس کے باعث کئی سال بعد بیراج سے پانی دریا کے ڈاؤن اسٹریم کی طرف بہایا جا رہا ہے۔ بیراج سے نکلنے والی چار نہروں، دائیں کنارے کی کلری کینالاور بائیں کنارے کی لائنڈ کینال، فلیلی کینال اور پنیاری کینال، میں پانی کی سطح معمول سے کچھ زیادہ اور خطرے کے مقام سےکافی نیچے ہے۔

کوٹری بیراج
کوٹری بیراج

کوٹری بیراج میں 5 سے 6 لاکھ کیوسک کا درمیانے درجے کا سیلابی ریلہ اتوار کے روز پہنچنے کا امکان ہے۔ جبکہ پیر کے روز بیراج سے تقریباً سات سے آٹھ لاکھ کیوسک کا ایک بڑا سیلابی ریلہ گزرے گا۔ تاہم آبپاشی کے ماہرین کے مطابق کوٹری تک آتے آتے سیلابی ریلے کا زور ٹوٹ چکا ہوگا، جس کے باعث اس سے ملحقہ علاقوں کے زیرِ آب آنے کا خدشہ دیگرعلاقوں کی بہ نسبت کم ہے تاہم اس کا امکان مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا۔

سندھ انتظامیہ کی جانب سےکسی بھی غیر معمولی صورتحال سے نمٹنے کے لیے دریا کے ساتھ موجود زیریں سندھ کے اضلاع کے دیہات کو خالی کرایا جارہا ہے۔

ماہرین آبپاشی کے مطابق کوٹری بیراج پر بڑی مقدار کے ممکنہ سیلابی ریلے کے باعث سب سے زیادہ خطرات حیدرآباد ضلع کی شہری تحصیل لطیف آباد کو لاحق ہوں گے۔ سیلابی ریلے کے باعث بند ٹوٹنے یا شگاف پڑنے کی صورت میں دریا کے بند کے بالکل ساتھ اور نشیب میں واقع لطیف آباد کے زیرِ آب آنے اور علاقے کی بارہ لاکھ سے زائد آبادی کے متاثر ہونے کے خدشے کے پیشِ نظر علاقے سے ملحقہ بند کی مرمت کا کام گزشتہ ہفتے سے جاری ہے۔ بڑی مقدار میں پتھروں اور بھاری مشینری کے ذریعے بند کو مضبوط بنانے کے عمل کے ساتھ ساتھ محکمہ آبپاشی کے ملازمین دیگر سول اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہمراہ بند کی چوبیس گھنٹے نگرانی پر مامور ہیں جبکہ آءندہ چند دنوں میں بند کے ساتھ ساتھ واقع زیریں رہائشی علاقے بھی خالی کرائے جانے اورمقامی آبادی کے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا امکان ہے۔

XS
SM
MD
LG