رسائی کے لنکس

نصف سے زائد کام کرنے والی برطانوی خواتین کو 'جنسی ہراس کا سامنا'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سروے 18 سے 65برس کی درمیانی عمروں کی 1533 ملازمت پیشہ خواتین کے جوابات پر مشتمل تھا جس سے ظاہر ہوا کہ دفاتر میں کام کرنے والی 52 فیصد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔

ایک جائزہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دفاتر میں کام کرنے والی نصف سے زائد برطانوی خواتین کو ملازمت کے دوران جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے جبکہ 80 فیصد خواتین دفاتر کی سطح پر ہراساں کئے جانے والے واقعات کی شکایت دفتر کے سربراہ سے نہیں کرتی ہیں۔

برطانیہ میں ٹریڈ یونین کانگریس اور ایوری ڈے سکسیزم نامی تنطیم کی طرف سے کئے جانے والے جائزے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ دفاتر میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنےجیسے واقعات کی سطح شرمناک ہے جہاں خواتین کو غیر اخلاقی رویے اور جنسی طرز عمل کی وجہ سے پریشان کیا جاتا ہے۔

سروے 18 سے 65 برس کی درمیانی عمروں کی 1533 ملازمت پیشہ خواتین کے جوابات پر مشتمل تھا جس سے ظاہر ہوا کہ دفاتر میں کام کرنے والی 52 فیصد خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کیا جا رہا ہے۔

اس طرح کے ہر دس میں سے نو واقعات میں ملزم مرد تھا اور تقریباً ہر پانچ میں سے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ انھیں براہ راست مینجر یا ان کے کسی باس کی طرف سے جنسی طور پر پریشان کیا گیا تھا۔

24 فیصد خواتین جنھوں نے جنسی طرز عمل کا نشانہ بننے پر رپورٹ نہیں کی تھی، کہا کہ انھوں نے محسوس کیا تھا کہ ان کا یقین نہیں کیا جائے گا یا انھیں سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا جبکہ 20 فیصد خواتین کو شرمندگی کا احساس تھا۔

رپورٹ کے مطابق دفاتر میں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے کے واقعات میں عام طور پر خواتین کو غیر اخلاقی تبصرے اور ہنسی مذاق کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ بعض اوقات انھیں غیر مناسب چھونے، گلے لگانے اور جنسی نوعیت کا زبانی یا جسمانی طرز عمل بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔

ٹی یو سی کے صدر فرانسس او گریڈی نے کہا کہ دفاتر میں اس طرح کے سلوک سے خواتین شرمندگی اور خوف محسوس کرتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دفاتر میں کام کرنے والی نوجوان لڑکیوں کے لیے یہ مسئلہ زیادہ گمبھیر تھا اور خاص طور پر اٹھارہ سے چوبیس سال کی دو تہائی خواتین نے کام کی جگہ پر ناپسندیدہ جنسی پیش قدمی کا سامنا کیا تھا۔

اسی طرح ایک تہائی خواتین کو اپنی ملازمت پر غیر اخلاقی ہنسی مذاق کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ہر چار میں سے ایک خاتون کی غیر مہذب انداز میں تعریف کی گئی تھی۔

ملازمت پیشہ خواتین میں سے ہر چار میں سے ایک نے بتایا کہ انھیں کام کی جگہ پر غیر اخلاقی سلوک کا سامنا تھا جہاں انھیں نامناسب انداز میں چھوا گیا تھا۔

جبکہ ہر آٹھ میں سے ایک خاتون کو دفتر کے ساتھی کی طرف سے جنسی نوعیت کے جسمانی طرز عمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

28 فیصد خواتین کو یہ ڈر تھا کہ واقعے کے بارے میں رپورٹ کرنے سے ان کے کام پر تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں اور 15 فیصد کا خیال تھا کہ اس طرح ان کے کیرئیر کے امکانات پر اثر پڑ سکتا ہے۔

ایوری ڈے سیکسیزم تنظیم کی بانی لورا بیٹس نے کہا کہ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ کام کی جگہ پر جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات ماضی کی بات ہے لیکن حقیقت میں یہ آج بھی پوری طرح سے موجود ہے جس کا لاکھوں ملازمت پیشہ خواتین کی زندگیوں پر اثر پڑ رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG