رسائی کے لنکس

کراچی میں 15 سال بعد علم کا سورج پھر روشن


پی اے سی سی اور برٹش کونسل قریب قریب واقع تھے۔ بلیک روڈ کے کونے پر ہی بھارتی قونصل خانہ قائم تھا۔ یہ روڈ کراچی کے پوش علاقے کلفٹن سے بھی جڑا ہوا ہے، اس لئے دن کے ہر پہر یہاں رونق رہتی تھی... لیکن, پھر اچانک یہ ہوا کہ ۔۔۔۔۔

بات 80ء کی دہائی کے آخری سالوں کی ہے۔ اس دور کے کالج طلبا انگریزی پڑھنے اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے پاک امریکن کلچرل سینٹر (پی اے سی سی) اور کتابیں پڑھنے اور اپنی علمی پیاس بجھانے کے لئے برٹش کونسل کے تحت قائم کردہ لائبریری جایا کرتے تھے۔

پی اے سی سی کینٹ اسٹیشن سے متصل فاطمہ جناح روڈ پر قائم تھا اور برٹش کونسل لائبریری کا ایڈریس 20 بلیک ہاؤس روڈ تھا۔ دونوں قریب قریب اور کینٹ اسٹیشن کے قریب ہی پاس، پاس واقع تھے۔ بلیک روڈ کے کونے پر ہی بھارتی قونصل خانہ قائم تھا۔ یہ روڈ کراچی کے پوش علاقے کلفٹن سے بھی جڑا ہوا ہے اس لئے دن کے ہرپہر یہاں رونق رہتی تھی۔

یہ وی او اے کے نمائندے کا بھی کالج لائف کا زمانہ تھا اس لئے برٹش کونسل اس کے تمام راستے اس کے پیروں کو لگے ہوئے تھے۔ وہ نسبتاً مہنگائی کا دور نہیں تھا لیکن جتنی قیمتیں نادر اور انگلینڈ میں مطبوعہ کتابیں برٹش کونسل کے ذریعے پڑھنے کو ملا کرتی تھیں، وہ آج بھی بینظیر ہے۔

پھر اچانک ملک میں جانے کیسے پے در پے دہشت گردی اور فرقہ ورانہ واقعات رونما ہونے لگے جس کا بھیانک نتیجہ یہ نکلا کہ ایک روز لائبریری بھی کار بم دھماکے کا شکار ہوگئی جس سے طلبہ اور عام لوگوں نے برٹش کونسل کا رخ کرنا چھوڑ دیا۔ شہر میں خوف کا عالم چھا گیا۔

کئی ماہ یا شاید سال بھر بعد لائبریری کو برٹش قونصل خانے کی حدود میں دوبارہ کھول دیا گیا جو کلفٹن پر واقع ہے۔ لیکن، اس دوران، نائن الیون کا واقعہ پیش آیا تو کراچی اور لاہور دونوں شہروں میں واقع لائبریاں بند کردی گئیں۔

یکم اگست کو 15 سال بعد یہ موقع آیا ہے کہ شاہراہ ایران کلفٹن میں برٹش کونسل لائبریری عوام کے لئے کھول دی گئی۔ جولائی میں یعنی پچھلے مہینے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے اس کا باقاعدہ افتتاح کیا، جبکہ یکم اگست اس کے دروازے ہر خاص و عام کے لئے واہ کردیئے گئے۔

لائبریری کی منیجر، رابعہ عارف نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ نئی لائبریری جدید سہولیات، علمی و ادبی پس منظر سمیت دوستانہ ماحول کی بھرپور عکاسی کرتی ہے۔ لائبریری کو اس بار اس طرح سے ڈیزائن کیا گیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد اس سے فیضیاب ہوسکیں۔

نئی عمارت صرف لائبریری کی سہولت ہی میسر نہیں کرتی بلکہ میٹنگ، بحث و مباحثے اور اسٹڈی سرکل جیسی سہولیات بہم پہنچانے کے لئے بھی باقاعدہ جگہ متعین کی گئی ہے۔

رابعہ عارف کے مطابق لائبریری کو مختلف ہالز میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں بیک وقت 150 سے زائد افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ بالائی منزل میں بھی بیک وقت 150 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے جبکہ ’عصمت چغتائی‘ کے نام سے بنائے گئے آڈیٹوریم میں بھی 100 افراد کی گنجائش موجود ہے۔

لائبریری کا صحن بھی اتنا وسیع ہے کہ یہاں بھی بیک وقت 80 افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ یہ صحن موسیقی، مشاعروں، کتابوں کی تقریب رونمائی اور گروپ کی شکل میں کتابوں کے مطالعہ سمیت دیگر سرگرمیوں کے لئے بھی مختص ہے۔

لائبریری کے مختلف ہالز کو پاکستان اور برطانیہ کے مختلف لکھاریوں، شاعروں اور آرٹسٹوں کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، ایک ہال کو سندھ کے صوفی بزرگ شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی جبکہ ایک ہال کو معروف آرٹسٹ صادقین کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔

لائبریری میں فکشن، نان فکشن، فلسفہ، ادب، سیاست، مذہب، تاریخ، شاعری، سیاحت و دیگر موضوعات پر دس ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں۔ برٹش کونسل ’ڈیجیٹل ممبر شپ کی سہولت بھی فراہم کر رہی ہے جس کے تحت لائربری ممبر ہر قسم کی کتابیں ڈاؤن لوڈ کرسکتا ہے۔

لائبریری کی تین قسم کی ممبرشپس ہیں۔ انفرادی، ڈیجیٹل اور فیملی ممبرشپ۔ اس کی کم از کم فیس 500روپے سے لیکر 15000 روپے ماہانہ رکھی گئی ہے۔ ہر ممبر کو بیک وقت پانچ کتابیں تین ہفتوں تک کی مدت تک کے لئے جاری کی جاتی ہیں۔

مختصراً کہیں تو برٹش کونسل نے لائریری کی صورت میں علم کی وہ شمع روشن کی ہے جس کا احسان اتارنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔

XS
SM
MD
LG