رسائی کے لنکس

سعودی عرب کو ہتھیار وں کی فروخت روکنے کا مقدمہ


صنعا میں سعودی طیاروں کی بمباری میں تباہ ہونے والی ایک عمارت۔ 2 فروری 2017
صنعا میں سعودی طیاروں کی بمباری میں تباہ ہونے والی ایک عمارت۔ 2 فروری 2017

برطانیہ کا کہنا ہے کہ وہ مسلسل معائنے کے نظام کے تحت سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ لیکن امدادی گروپس کا کہنا ہے کہ سعودی یمن تنازع کے نتیجے میں انسانی ہمددردی کا بدترین بحران پیدا ہوا ہے۔

انسانی حقوق سے متعلق سر گرم کار کنوں نے برطانوی حکومت کی جانب سے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت روکنے کی کوشش کے لیے ایک قانونی مہم شروع کر دی ہے۔ ناقدین ، امریکہ اور برطانیہ کے حمایت یافتہ سعودی قیادت کے اتحاد پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ ، یمن میں ہوثی باغیوں کے ساتھ اپنی لڑائی کے دوران سویلین علاقے پر بمباری کر کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔

اکتوبر 2016 میں ظہیر اور اس کا خاندان یمن کے دار الحکومت صنعا میں ایک شیخ کے جنازے میں شریک تھے۔ کمیونٹی ہال ایک ہزار سے زیادہ لوگوں سے بھرا ہوا تھا جب جنگی طیاروں نے ایک عمارت پر دو میزائل داغے ۔ جس کے نتیجے 140 لوگ ہلاک اور بہت سے زخمی ہو گئے۔

بم کے ایک متاثرہ شخص ظہیر نے بتایا کہ میرے انکل نے مجھے وہاں سے ہٹا کر دور کیا ۔ میں جل چکا تھا، میرا چہرہ، میرے ہاتھ میرے پاؤں جل چکے تھے ۔پھر ہم ایک ٹیکسی لے کر گھر آئے، میرے کپڑے جل چکے تھے میں پورا کا پورا جل چکا تھا۔

ظہیر کا خاندان علاج کرانے کے وسائل نہیں رکھتا تھا اور اسے دو ہفتے تک کوئی طبی مدد نہ ملی۔

انسانی حقوق کے گروپ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ جائے واقعہ پر بم فورینسک شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ میزائل سعودی جیٹ طیاروں سے داغے گئے تھے اگرچہ ریاض نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا ۔

امریکہ اور برطانیہ کی حمایت یافتہ سعودی قیادت کی فوجی مداخلت کا مقصد ایرانی حمایت یافتہ ہوثی جنگجؤوں کا مقابلہ کرنا ہے جس کا دار الحکومت صنعا پر قبضہ ہے ۔ لیکن نقاد کہتے ہیں کہ ہر تین میں سے ایک فضائی حملے نے شہری مقامات کو ہدف بنایا ہے جس سے ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسلحے کی تجارت کے خلاف لندن میں شروع ہونے والی مہم کا کہنا ہے کہ مارچ 2015 سے جب سے یمن کا تنازع شروع ہوا ہے، برطانیہ سعودی عرب کو چ4 اعشاریہ ایک ارب ہتھیار فروخت کر چکا ہے ۔

اس ہفتے اس گروپ نے برطانوی حکومت کے خلاف ایک قانونی چارہ جوئی شروع کی ہے ۔ اسلحے کی تجارت کے خلاف مہم کے ایک کارکن کیٹ ہوبز کا کہنا ہے کہ ہم نے اقوام متحدہ کے ماہرین کے پینل کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ شاہی سعودی ایئر فورس یمن پر حملے کرتے ہوئے عام شہریوں کو بڑے پیمانے پر اور منظم طریقے سے ہدف بنا رہی ہے ۔ اب اگر برطانیہ میں برآمدات پر کنٹرول کے قانون کی کوئی حیثیت ہے تو برطانوی حکومت کو سعودی حکومت کو اسلحے کی فروخت فوری طور پر روک دینے کے لیے کہنا چاہیے۔

برطانیہ کا کہنا ہے کہ اس کا برآمدات کا ایک بہت اچھا نظام ہے اور وہ مسلسل معائنے کے تحت سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ لیکن امدادی گروپس کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کے نتیجے میں دنیا میں انسانی ہمددردی کا ایک بد ترین بحران پیدا ہوا ہے ۔

ایک امدادی ادارے سیو دی چلڈرن کے فرگوس دڈراک کہتے ہیں کہ اس وقت ایک کروڑ بچوں کو انسانی ہمددردی کی امداد کی اشد ضرورت ہے اورنصف ملین بچے غذائیت کی شدید قلت کا شکار ہیں ۔ اس لیے ظاہر ہے بین الاقوامی قانون میں ہر طرف سے کچھ سقم رہے ہیں ۔ لیکن سعودی عرب برطانیہ کا ایک اہم اتحادی ہے، برطانیہ سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کر رہا ہے ا ور سعودی قیادت کا اتحاد یمن میں بچوں کو ہلاک کر رہا ہے۔

سعودی عرب اس سے انکار کرتا ہے کہ وہ دانستہ طور پر عام شہریوں کو ہدف بنا رہا ہے ۔ لیکن برطانوی ہائی کورٹ توقع ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں اپنا فیصلہ سنائے گی۔

XS
SM
MD
LG