رسائی کے لنکس

مصر: محمد مرسی کے حامیوں کے مظاہرے جاری


مصر کے برطرف صدر محمد مرسی کے ہزاروں حامی قاہرہ میں وزیرِاعظم کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کر رہے ہیں
مصر کے برطرف صدر محمد مرسی کے ہزاروں حامی قاہرہ میں وزیرِاعظم کے دفتر کے سامنے مظاہرہ کر رہے ہیں

ہاتھوں میں قرآن اور صدر مرسی کی تصویروں والے کتبے اٹھائے ہوئے مظاہرین نے فوجی اقدام کے خلاف اور محمد مرسی کے حق میں نعرے بازی کی۔

مصر کے پہلے منتخب صدر محمد مرسی کی اقتدار سے بے دخلی کے خلاف 'اخوان المسلمون' کے ہزاروں حامیوں نے دارالحکومت قاہرہ سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بدھ کو بھی احتجاجی مظاہرے جاری رکھے۔

برطانوی خبر رساں ایجنسی 'رائٹرز' کے مطابق چلچلاتی دھوپ اور گرمی کے باوجود اخوان کے ہزاروں کارکن اور حامی قاہرہ میں وزیرِاعظم کے دفتر کے باہر جمع ہوئے اور محمد مرسی کی بحالی کا مطالبہ کیا۔

ہاتھوں میں قرآن اور صدر مرسی کی تصویروں والے کتبے اٹھائے ہوئے مظاہرین نے فوجی اقدام کے خلاف اور محمد مرسی کے حق میں نعرے بازی کی۔

مظاہرین نے قاہرہ کے وسط میں واقع سرکاری دفاتر کے عمارات سے شہر کے دیگر حصوں کی جانب مارچ بھی کیا لیکن پولیس نے انہیں 'تحریر اسکوائر' کی جانب جانے سے روک دیا جو حالیہ ہفتوں میں اسلام پسند صدر کے مخالف مظاہرین کا مرکز رہا ہے۔

'رائٹرز'کے مطابق تحریر اسکوائر پر پہلے سے موجود ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے مسلح محمد مرسی کے مخالف چند درجن نوجوانوں نے اخوان کے حامیوں کے جلوس پر حملے کی کوشش کی جسے پولیس نے ناکام بنادیا۔

بعد ازاں بعض نوجوانوں نے صدر کے حامیوں پر پتھرائو بھی کیا۔

محمد مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' نے بدھ کو 'یومِ استقلال' قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں فوجی اقدام کے خلاف مظاہروں کی اپیل کی تھی۔

خیال رہے کہ مصری فوج نے دو ہفتے قبل صدر مرسی کو اقتدار سے بے دخل کرکے ملکی آئین معطل کردیا تھا اور مصر کی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کی سربراہی میں عبوری حکومت قائم کی تھی۔

مصر کی بیشتر لبرل اور سیکولر جماعتوں نے فوجی اقدام کی حمایت کی ہے جب کہ صدر مرسی کی جماعت 'اخوان المسلمون' نے فوجی اقدام کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے محمد مرسی کی بحالی تک پرامن احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔

لیکن ملک میں اسلام پسندوں اور لبرل حلقوں کے درمیان بڑھتی ہوئے کشیدگی اور مصری فوج کی اسلام پسندوں کے ساتھ مخاصمت کی طویل تاریخ کے باعث خدشہ ہے کہ یہ احتجاجی تحریک پرامن نہیں رہ پائے گی۔

صدر مرسی کی برطرفی کے خلاف ہونے والے مظاہروں پر فوجی اہلکاروں کی فائرنگ اور پرتشدد جھڑپوں کے نتیجے میں اب تک 100 کے لگ بھگ افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ سیکڑوں زخمی ہیں۔

برطرف صدر مرسی سمیت اخوان کے کئی مرکزی رہنما اور سیکڑوں سرگرم کارکن فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی حراست میں ہیں جب کہ کئی اہم رہنمائوں کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جاچکے ہیں۔

منگل کو مصر کی عبوری کابینہ کی تقریبِ حلف برداری سے چند گھنٹے قبل بھی 'اخوان المسلمون' کے حامیوں اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان رات بھر جاری رہنے والی جھڑپوں میں سات افراد ہلاک اور ڈھائی سو سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

عبوری حکومت کی 33 رکنی کابینہ کے بیشتر وزرا لبرل اور سیکولر پسِ منظر کے حامل ہیں جب کہ کابینہ میں اخوان سمیت اسلام پسند جماعتوں کی کوئی نمائندگی نہیں۔

کابینہ میں صدر مرسی کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے والے فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی بھی شامل ہیں جنہیں وزیرِ دفاع برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ میں پہلی بار نائب وزیرِاعظم کا عہدہ بھی دیا گیا ہے۔

ایشٹن کا دورہ قاہرہ

مصر کی عبوری حکومت کے ارادوں سے آگاہی اور مستقبل کے معاملات پر غور کے لیے یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران کیتھرین ایشٹن بدھ کو قاہرہ پہنچ رہی ہیں۔

ایشٹن سے قبل امریکی محکمہ خارجہ کے اعلیٰ اہلکاروں کے ایک وفد نے بھی دو روز قبل قاہرہ کا دورہ کیا تھا اور عبوری حکومت کے عہدیداران سے ملاقاتیں کی تھیں۔

لیکن امریکی وفد کے برعکس مس ایشٹن عبوری حکومت کے رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتوں کے علاوہ عالمِ عرب کی سب سے منظم اور بڑی اسلامی جماعت سمجھی جانے والی 'اخوان المسلمون' کی قیادت سے بھی ملاقات کریں گی۔

دورہ مصر سے قبل جاری کیے جانے والے اپنے ایک بیان میں یورپی یونین کی اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ وہ یہ پیغام لے کر قاہرہ جارہی ہیں کہ مصر میں ایک ایسا سیاسی عمل ہر صورت شروع ہونا چاہیے جس میں جمہوریت کے حامی تمام گروہ شریک ہوں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ مصر کو جتنا جلد ممکن ہو دوبارہ جمہوری انتقالِ اقتدار کی طرف لوٹنا ہوگا۔

اخوان کی 17 رکنی شوریٰ کے رکن محمد بشر نے 'رائٹرز' کو بتایا ہے کہ وہ پارٹی کے دیگر رہنمائوں کے ساتھ یورپی یونین کی عہدیدار سے ملاقات کریں گے اور انہیں "جمہوریت اور آئین کی بالادستی" پر اپنے موقف سے آگاہ کریں گے۔
XS
SM
MD
LG