رسائی کے لنکس

2,960 ارب روپے کا نیا وفاقی بجٹ


مالی سال 13-2012ء میں مجموعی وفاقی محاصل کا تخمینہ 1,775 ارب روپے لگایا گیا ہے جو مالی سال 12-2011ء کے 1,529 ارب روپے کے تخمینہ جات کے مقابلے میں 16.1 فیصد زیادہ ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں وفاقی بجٹ کا خسارہ 1,185 ارب روپے رہنے کا امکان ہے۔

پاکستان کے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے مالی سال 13-2012ء کے لیے 2,960 ارب روپے کا وفاقی بجٹ جمعہ کو قومی اسمبلی میں پیش کیا۔

آئندہ مالی سال کے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے اور وزیر خزانہ نے اپنی تقریر میں کہا کہ حکومت نے عام آدمی کو ریلیف دینے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔

حفیظ شیخ نے کہا کہ سرکاری ملازمین کو نجی شعبے کے مقابلے میں کم تنخواہوں کے باعث شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے حکومت پچھلے چار سالوں کے دوران ان کی تنخواہوں میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ کر چکی ہے۔

’’آئندہ مالی سال کے دوران تنخواہوں اور پینشن میں 20 فیصد ایڈہاک ریلیف الاؤنس دیا جائے گا۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ مالی سال 13-2012ء کے لیے وفاقی محاصل کے کل حجم کا تخمینہ 3,234 ارب روپے لگایا گیا ہے جو گزشتہ سال کی تسبت 18.3 فیصد اضافے کو ظاہر کرتا ہے۔

اُن کے بقول وفاقی محاصل میں سے ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت 1,459 ارب روپے صوبوں کو منتقل کیے جائیں گے جو رواں مالی سال کے 1,203 ارب روپے کے مقابلے میں 21.3 فیصد زیادہ ہیں۔

’’مالی سال 13-2012ء میں مجموعی وفاقی محاصل کا تخمینہ 1,775 ارب روپے لگایا گیا ہے جو مالی سال 12-2011ء کے 1,529 ارب روپے کے تخمینہ جات کے مقابلے میں 16.1 فیصد زیادہ ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں وفاقی بجٹ کا خسارہ 1,185 ارب روپے رہنے کا امکان ہے۔‘‘

وفاقی وزیر خزانہ نے جونہی بجٹ تقریر شروع کی تو حسب توقع مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے ایوان میں نعرے لگانا اور ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔ ایک موقع پر احتجاج کرتے ہوئے اپوزیشن اراکین حفیظ شیخ کے قریب پہنچ گئے جنہیں پیچھے دھکیلنے کی کوشش میں پیپلز پارٹی کے اراکین کے ساتھ ان کی ہاتھا پائی بھی ہوئی اور یوں اجلاس کا ماحول انتہائی کشیدہ ہوگیا۔

لیکن اس ہنگامہ آرائی اور شور شرابے کے باجود حفیظ شیخ نے اپنی تقریر جاری رکھی اور ان اقدامات کی تفصیلات بتائیں جو اقتصادی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت نے رواں مالی سال کے دوران کیے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ حکومت کی پالیسوں کی بدولت مشکل حالات کے باوجود معاشی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوا۔

لیکن اجلاس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے بجٹ کے اعداد و شمار اور گزشتہ سال حکومت کی معاشی کامیابیوں کے دعوؤں کو مسترد کیا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسمبلی میں ہونے والے احتجاج بلا شبہ ناخشگوارتھا۔

’’لیکن جب حکومت ڈھیٹ ہو گئی ہو تو پھر کوئی تو طریقہ ہے کہ ہم عوام کی آواز، تکالیف اور مسائل اسمبلی کے اندر پہنچائیں ... کتنا ہی نا خوشگوار کیوں نا ہو ایوان میں حکومت کے خلاف ہونے والی نعرہ بازی عوام کی آواز تھی۔‘‘

اُنھوں نے پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت پر بداعوانی کے الزامات کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔

’’آج بدعنوانی کا ایک کنسورشیم کام کر رہا ہے، خاندان کے خاندان پاکستان کو لوٹ رہے ہیں، حکومت بدعنوان بھی ہے، بے خبر بھی ہے، غیر سنجیدہ بھی ہے اور بدقسمتی سے مکمل طور پر گونگی اور بہری بھی ہے۔ تو ہم نے اس پر احتجاج کیا۔‘‘

واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر یاسین انور نے بھی حال ہی میں ایک غیر ملکی اخبار کو دیئے گئے انٹرویو میں اعتراف کیا ہے کہ غیر مستحکم اقتصادی حالات کےباعث ملک کو ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف کے سہارے کی ضرورت ہوگی۔

گورنر یاسین انوار نے کہا کہ بجٹ اور تجارتی خسارے میں کمی میں حکومت کی ناکامی یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے دوران آئی ایم ایف کو چار ارب ڈالر سے زائد قرضے کی ادائیگی میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔

حکومت وقت پرخصوصاً صاحب حیثیت پاکستانیوں بشمول سیاست دانوں سے ٹیکس وصول کرنے میں ناکامی پر امریکہ اور دیگرغیر ملکی رہنماؤں کی طرف سے کڑی تنقید بھی کی جاتی رہی ہے۔

اسٹیٹ بینک گورنر نے بتایا کہ ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کی بجائے حکومت نے مرکزی بینک سے زیادہ سے زیادہ براہ راست قرضے حاصل کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے یعنی دوسرے لفظوں میں خسارہ پورا کرنے کے لیے نوٹ چھاپے جا رہے ہیں۔

اپنے انٹرویو میں یاسین انور نے کہا ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے دوران مرکزی بینک سے براہ راست 442 ارب روپے قرضہ لیا ہے۔ ان کے بقول وہ ایک مرکزی بینک کے ایک خود مختار گورنر ہیں لیکن اتنے نہیں کہ حکومت کے کسی چیک کو واپس کرسکیں۔

XS
SM
MD
LG