رسائی کے لنکس

’پاکستان سے مذاکرات نہیں ہو سکتے‘: براہمداغ


علیحدگی پسند بلوچ لیڈر، براہمداغ بگٹی کا انٹرویو
please wait

No media source currently available

0:00 0:15:27 0:00

علیحدگی پسند بلوچ لیڈر، براہمداغ بگٹی کا انٹرویو

بھارت کے پاکستان پر سرجیکل حملوں کی حمایت کرتا ہوں، اسلام آباد کو اپنے سرزمین پر دہشتگردوں کو ہدف بنانے پر واشنگٹن اور دہلی کا شکر گزار ہونا چاہیئے، جلاوطن علیحدگی پسند راہنما کی وائس آف امریکہ سے گفتگو، ہوم منسٹر سرفراز بگٹی کی الزامات کی تردید

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جلا وطن علیحدگی پسند راہنما، براہمداغ خان بگٹی نے کہا ہے کہ ان کا ’’مسلح مزاحمت‘‘ سے کوئی تعلق نہیں؛ ’’نہ ہی‘‘ بلوچستان لبریشن آرمی کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم، اُنھوں نے کہا ہے کہ وہ ’’بلوچ عوام کی آزادی کے لیے سیاسی کوششیں کر رہے ہیں‘‘ اور پاکستان کی ریاست یا حکومت کے ساتھ ’’بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے‘‘۔

انہوں نے بھارت کے پاکستان کے اندر سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کی حمایت کرتے ہوئے، کہا ہے کہ ’’پاکستان اگر خود دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا اہل نہیں، تو ملک سے دہشتگردوں کے خاتمے کے لیے اسے امریکہ اور بھارت کے سرجیکل حملوں پر اعتراض کے بجائے ان ملکوں کا شکریہ ادا کرنا چاہئے‘‘۔

انہوں نے چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں کہا کہ ’’یہ منصوبہ ہم بلوچوں کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اس سے صرف اسلام آباد یا لاہور کو ہی فائدہ پہنچے گا‘‘۔

’وائس آف امریکہ‘ کی اردو سروس کے ساتھ اسکائپ پر خصوصی انٹرویو میں براہمداغ بگٹی نے کہا کہ ’’اٹھاریوں ترمیم سے مطمئن بلوچستان قیادت بلوچوں کی نمائندہ نہیں ہے۔ اب حقوق اور وسائل مساوی تقسیم کی بات نہیں بلکہ آزادی کی بات کر رہے ہیں۔‘‘

انھوں نے کہا کہ ’’کئی عشرے حقوق کے لیے آواز بلند کی‘‘، جو، ان کے مطابق، ’’اسٹیبلشمنٹ نے نہیں سنی‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’سیاست میں اگرچہ بات چیت کے دروازے کھلے رہتے ہیں، لیکن اب پاکستان کے ساتھ مذاکرات نہیں ہو سکتے‘‘۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ پرتشدد مزاحمت سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ ہی لبریشن آرمی کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم، وہ ان بلوچوں کے ساتھ ہیں ’’جو ریاست کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں‘‘۔

براہمداغ بگٹی سال 2006ء میں اپنے دادا نواب اکبر بگٹی، جو بلوچستان کے گورنر اور وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے تھے، ان کی جنرل مشرف کے دور میں ایک آپریشن کے دوران ہلاکت کے بعد سے جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں اور مختلف ممالک میں قیام کے بعد اب سوٹزرلینڈ میں ہیں، بلوچستان ری پبلکن پارٹی کے سربراہ کی حیثیت سے مختلف بین الاقوامی فورمز، ان کے بقول، ’’صوبےمیں پاکستان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق آواز بلند کرتے دکھائی دیتے ہیں‘‘۔

پاکستان نے ’بلوچ ری پبلکن آرمی‘ اور ’بلوچ لبریشن آرمی‘ جیسی علیحدگی پسند مزاحمتی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے، اور ان کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔

بلوچستان کے محکمہ داخلہ کے وزیر، سرفراز بگٹی نے بھی ’وائس آف امریکہ‘ سے بات کرتے ہوئے براہمداغ بگٹی کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ’’حکومت کسی بھی ایسے شخص کے لیے بات کرنے کے لیے تیار ہے جو اسلحہ پھینک کر قومی دھارے میں شامل ہونا چاہے‘‘۔

ان کے بقول ’’براہمداغ اگر بات نہیں کرنا چاہتے تو یہ ان کا موقف ہے۔ ہمارے دروازے سب کے لیے کھلے ہیں‘‘۔

صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ’’براہمداغ کے لوگ جوق در جوق ہتھیار ڈال رہے ہیں اور ان کا اپنا خاندان بھی ان کے ساتھ نہیں ہے‘‘۔

نواب اکبر بگٹی کے ایک پوتے شاہ زین بگٹی اپنے چچا زاد، براہمداغ بگٹی سے مختلف نقظہ نظر رکھتے ہیں اور گزشتہ روز ایک اخباری بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو وہ بلوچ نوجوانوں کو ساتھ ملا کر پاکستان کی فوج کے شانہ بہ شانہ لڑیں گے‘‘۔ براہمداغ نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ’’مجھے افسوس ہے کہ شاہ زین میرے کزن ہیں‘‘۔

وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے مزید کہا کہ ’’براہمداغ پتا نہیں کس آزادی کی بات کرتے ہیں، بلوچستان کے عوام 1947 میں آزاد ہوگئے تھے‘‘؛ اور پھر ان کے لفظوں میں ’’سال دو ہزار پانچ، دوہزار چھ میں اس وقت حقیقی طور پر آزاد ہوئے جب صوبے کے عوام کو براہمداغ اور ان کے ظالم دادا سے نجات ملی‘‘۔

براہمداغ بگٹی نے انٹرویو میں کہا کہ ’’فوجی افسر پگیں پہن کر بلوچ عوام کو ساتھ نہیں ملا سکتے۔ انہوں نے ملٹری اور پیراملٹری فورسز پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب، شہریوں کے ماورائے عدالت قتل اور صوبے کے وسائل میں خردبرد‘‘ کا بھی الزام عائد کیا۔

وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اس الزام کی بھی تردید کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق کور کمانڈر اور موجودہ مشیر برائے قومی سلامتی ناصر جنجوعہ نے جس طرح ’’عوام اور قبائل کے ساتھ مل کر عسکریت پسندی کی تحریک سے نمٹا ہے اور ہتھیار اٹھانے والوں کو قومی دھارے میں لے آئے ہیں، وہ قابل ستائش ہے‘‘۔

برہمداغ نے پاکستان کے میڈیا سے گلہ کیا کہ وہ ریلیاں جلسے جلوس اور دھرنے تو دکھاتا ہے ’’بلوچستان کے مسائل پر آواز بلند نہیں کرتا‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں پنجاب کے ان شہریوں کی ہلاکت کا دکھ ہے جنہیں بلوچستان میں ٹارگٹ کلنگ میں مارا گیا۔ لیکن، ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ حملے بھی دراصل بلوچ عوام کے اسٹیبلشمنٹ کے اقدامات پر ردعمل کا نتیجہ تھے‘‘۔

بقول اُن کے، ’’پاکستان اور بھارت کی درمیان کشیدگی بلوچ قوم پرستوں کے مفاد میں ہے‘‘۔ انہوں نے اس بات سے انکار کیا کہ انہیں بھارت سے ’’کسی بھی نوعیت کی‘‘ مدد حاصل ہے۔

اُن کے الفاظ میں، ’’اچھا ہوتا جو ہمیں بھارت یا کسی بھی ملک کی مدد حاصل ہوتی۔ مگر ایسا نہیں ہے‘‘۔ ان کے بقول، ’’اگر بھارت فوجی مدد کرتا تو بلوچستان بھی بنگلہ دیش کی طرح کب کا آزاد ہو چکا ہوتا‘‘۔

پاکستان بھارت پر الزام عائد کرتا ہے کہ بھارت اس کے جنوب مغربی صوبے میں عسکریت پسندوں کو مدد فراہم کر رہا ہے، جبکہ بھارت اس کی تردید کرتا ہے۔

براہمداغ بگٹی نے بتایا کہ سوٹزرلینڈ نے ان کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد نہیں کی۔ تاہم، ’’سفری بندشوں کے سبب‘‘ وہ بھارت منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ ،کیا انہوں نے بھارت میں سیاسی پناہ یا شہریت کی باضابطہ درخواست دے دی ہے، ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں ’’ابھی دو ٹوک بات نہیں کریں گے‘‘، البتہ، ان کے بقول، جو ان کے ’’بھارتی دوستوں‘‘ اور ان کے لیے ’’بہتر ہوا‘‘ وہی کریں گے۔

XS
SM
MD
LG