رسائی کے لنکس

برما کے انتخابی نتائج کا چین سے تعلقات پر اثر


حالیہ انتخابات میں جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے
حالیہ انتخابات میں جمہوریت پسند رہنما آنگ سان سوچی کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی ہے

آنگ سان سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے برما کے حالیہ انتخابات میں زبردست فتح حاصل کی ہے اور حزبِ اختلاف کی یہ پارٹی دو ہفتوں میں پارلیمینٹ میں پہنچ جائے گی ۔ انتخابات کے نتائج سے جو بہت سے سوالات پیدا ہو رہےہیں ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ ان سے برما کے ساتھ چین کے تعلقات پر کیا اثر پڑے گا۔ چین وہ ملک ہے جس نے برما میں سب سے زیادہ سرمایہ لگایا ہوا ہے ۔

چین ایک طویل عرصے سے برما کا اہم اتحادی رہا ہے، اور سرکاری اندازوں کے مطابق، وہ اب تک برما میں 15 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر چکا ہے ۔
لیکن گذشتہ سال سے جب برما نے، جسے میانمار بھی کہتے ہیں، ملک میں اصلاحات شروع کی ہیں، سینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا ہے، نسلی اقلیتوں کے باغی عناصر سے مذاکرات شروع کیے ہیں، اور سینسر شپ کی پابندیاں نرم کی ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ وہ معیشت پر چین کے اثر کو بھی کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ارنسٹ بوؤر واشنگٹن میں سینٹر فار اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں جنوب مشرقی ایشیا کے پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں۔

وہ کہتےہیں’’فوجی حکومت نے جمہوریت کی طرف پیش قدمی کا جو فیصلہ کیا اس میں چین کے ساتھ تعلق کا بھی دخل تھا لیکن پارلیمینٹ میں آنگ سان سوچی اور حزبِ اختلاف کی موجودگی کے بعد، میرا خیال ہے کہ اس قسم کے موضوعات پر اور زیادہ بات چیت ہوگی۔ میانمار کے لیڈروں اور کاروباری شخصیتوں کے ساتھ انٹرویوز سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ ملک میں یہ احساس موجود ہے کہ چین کا اثر و رسوخ بہت زیادہ ہے ۔‘‘

تجزیہ کار کہتےہیں کہ گذشتہ سال صدر تھیئن سیئن کا یہ فیصلہ کہ شمالی برما میں پن بجلی کے ایک بڑے چینی پراجیکٹ پر مقامی لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے کام روک دیا جائے ، اس بات کی مثال ہے کہ برما چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتا ہے ۔


منصوبے کے مطابق میسٹسون ڈیم پر2017 میں کام مکمل ہونا تھا اور توقع تھی کہ اس سے چین کے شہروں کی روز افزوں بجلی کی مانگ پوری ہوگی ۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ اس منصوبے پر کام شروع ہوگا یا نہیں۔
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں برما کے امور کے ماہر ڈیوڈ اسٹینبرگ کہتے ہیں کہ انہیں توقع ہے کہ برما کی معیشت میں چین اہم کردار ادا کرتا رہے گا۔ لیکن برما کے صدر نے میسٹسون ڈیم کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس تعلق کی کچھ حدود ہیں۔

’’میرے خیال میں یہ بات چین کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے کارڈز انتہائی احتیاط سے کھیلے ۔ میسٹیسون کے سلسلے میں ان سے چوک ہوئی۔ لیکن یہ امید کرنی چاہیئے کہ انھوں نے اس سے سبق سیکھ لیا ہوگا۔ انہیں یہ خیال نہیں تھا کہ عوام کی رائے سے متاثر ہو کر حکومت اپنا موقف تبدیل کر دے گی۔ اب انہیں پتہ چل گیا ہے کہ در اصل ایسا ہی ہوا۔‘‘

اسٹیئنبرگ کہتے ہیں کہ چین کو بھی یہ فکر ہونی چاہیئے کہ برما میں بہت زیادہ سرمایہ کاری سے عام لوگوں کے جذبات متاثر ہو سکتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ماضی میں چین کے خلاف فسادات ہوئے ہیں، اور ملک کی معیشت پر غیر ملکی کنٹرول، برما میں ایک حساس مسئلہ رہا ہے۔

’’اگر برما کے لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ کہ ملک کی معیشت ایک بار پھر چین کے کنٹرول میں چلی گئی ہے، تو لوگوں میں اس کا رد عمل ہو سکتا ہے ۔ برما میں چین کے خلاف جذبات پہلے سے موجود ہیں۔ چین اس مسئلے سے واقف ہے اور اسے محتاط ہونا چاہیئے۔‘‘

اس کے ساتھ ہی، برما سرمایہ کاری کے دوسرے ذرائع بھی تلاش کر رہا ہے ۔ حالیہ ہفتوں میں، برما نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ضابطے نرم کیے ہیں۔ بوؤر کہتے ہیں کہ اس طرح نہ صرف سرمایہ کاری کے مواقع میں اضافہ ہو گا، بلکہ برما کو متبادل ذرائع بھی مل جائیں گے۔

’’ظاہر ہے کہ حکومت کا ایک مقصد یہ ہے کہ سیاسی آزادی کے بعد اقتصادی اصلاحات کی جائیں تا کہ دوسرے ملکوں سے نئی ٹکنالوجی اور سرمایہ ملک میں آ سکے ۔‘‘

تجزیہ کار کہتے ہیں کہ برما چاہتا ہے کہ اس عمل میں امریکہ اور یورپ بھی شامل ہو جائیں، اور آسیان کے ملکوں، جاپان اور یورپ کی شراکت کو وسعت دی جائے ۔ لیکن پابندیوں کی وجہ سے، برما میں امریکہ ، اور دوسرے ملکوں کی سرمایہ کاری اب بھی مسئلہ بنی ہوئی ہے ۔

XS
SM
MD
LG