رسائی کے لنکس

برما جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کوشاں؟


اقوامِ متحدہ کے ایک سابق نیوکلیئر انسپکٹر نے کہا ہے کہ برما کانوں سے یورینیم نکال رہا ہے اور نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام کے لیے اجزا اور پرزے حاصل کر رہا ہے ۔لیکن ایک نئی رپورٹ میں جو دستاویزی ثبوت پیش کیے گئے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ برما کے نیوکلیئر خطرہ بننے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے ایک ریٹائرڈ ڈائریکٹر رابرٹ کیلی نے کہا ہے کہ برما کا ارادہ بالکل واضح ہے ۔ و ہ نیوکلیئر بم بنانا چاہتا ہے ۔ کیلی نے ان تصویروں اور کاغذات کی چھان بین میں مہینوں صرف کیے ہیں جو برما کی فوج کے ایک انجینیئر نے جو حال ہی میں ملک سے فرار ہوئے ہیں، فراہم کیے ہیں۔ برما کی حکومت کے مخالف گروپ، ڈیموکریٹک وائس آف برما، نے جو ناروے میں قائم ہے، کیلی کو یہ رپورٹ تیار کرنے کے لیے مامور کیا تھا۔

ایک اور محقق علی فووِل ہیں جنھوں نے اس کام میں کیلی کی مدد کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اس بات کا سب سے طاقتور ثبوت ہےکہ برما نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری پر کام کر رہا ہے، ان چیزوں کے فوٹو ہیں جنہیں بم ریڈکشن ویسلز کہا جاتا ہے ۔’’یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ مشینیں فیکٹریوں میں یورینیم کے کیمیکل کمپاؤنڈز تیار کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مشین سے افزودہ شدہ یورینیم کے نمکیاتی ذرات کو یورینیم کی دھات میں تبدیل کرنے کا کام لیا جاتا ہے ۔ آپ یہ کام دوسرے مقاصد کے لیے بھی کر سکتے ہیں لیکن امکان یہی ہے کہ یہ کام نیوکلیئر اسلحہ کے پروگرام کے لیے کیا گیا ہے ۔‘‘

اس رپورٹ میں جن رنگین تصویروں کا تجزیہ کیا گیا ہے ان میں برما کے فوجی افسروں اور سویلین عہدے داروں کو ایک مشین کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ اس مشین کو ویکیوم گَلوو بَکس کہا جاتا ہے اور یہ یورینیم کی دھات کی تیاری میں استعمال ہو تی ہے ۔

فووِل کہتے ہیں کہ اس رپورٹ میں جن دو فیکڑیوں کا تجزیہ کیا گیا ہے، ایسا لگتا ہے کہ انھیں صرف برما کے انجینیئر چلاتے ہیں اور برما ابھی نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی تیاری کے بالکل ابتدائی مراحل میں ہے ۔’’ان کی بنائی ہوئی بعض مشینیں یا بعض اشیاء انتہائی بھدی ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے اس کام میں باہر سے کوئی مدد نہیں لی ہے ۔مثلاً ایک چیز جس میں آگ جلتی ہے اس سے دو پائپ باہر نکل رہے ہیں۔ اس کی ویلڈنگ اتنی خراب ہے کہ شاید میرےپلمبر کا کام اس سے بہتر ہوتا۔‘‘

اس تفتیش میں مرکزی حیثیت سان تھیئن وِن کو حاصل ہے ۔ وہ فوج کے سابق انجینیئر اور میزائل کے ماہر ہیں جنھوں نے برما کی فیکٹریوں میں کام کیا ہے اور روس میں تربیت حاصل کی ہے۔ وہ اب برما کو خیر باد کہہ چکے ہیں۔ فووِل کہتے ہیں کہ وِن نے محسوس کیا کہ یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ جو کچھ جانتے ہیں ، اس سے دنیا کو آگاہ کریں۔ ان کی فراہم کی ہوئی معلومات کے تجزیے میں،فووِل نے تسلیم کیا ہے کہ صرف ایک ذریعے پر مبنی رپورٹ کافی نہیں ہوتی اور یہ بھی ممکن ہے کہ تصویریں جعلی ہوں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ وِن کا پس منظر قابلِ اعتبار ہے اور تصویروں کی تعداد اور ان کی کوالٹی کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اصلی ہیں۔

اس رپورٹ کے جاری کیے جانے سے چند گھنٹے قبل، امریکی سینیٹر جِم ویب نے اپنا برما کا دورہ منسوخ کر دیا۔ جمعرات کے روز بنکاک میں سینیٹر ویب نے اس رپورٹ کے مندرجات اور امریکہ کی اس تشویش کا حوالہ دیا کہ مبینہ طور پر شمالی کوریا نے برما کو ہتھیار فراہم کیے ہیں۔’’مجھے یہ نہیں معلوم کہ یہ معلومات کس حد تک صحیح ہیں لیکن میرے خیال میں ان دو الزامات میں برما اور شمالی کوریا کے ملوث ہونے کے بارے میں اور نیوکلیئر پروگرام کے امکان کے بارے میں، کافی مواد موجود ہے جسے طے کرنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر میرے لیے اس وقت برما کا دورہ کرنا مناسب نہیں ہو گا۔‘‘

سینیٹر ویب مشرقی ایشیا کے بارے میں امریکی سینٹ کے خارجہ تعلقات کے پینل کے چیئر مین ہیں۔ برما کی فوجی حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنے کے لیے اوباما انتظامیہ کی کوششوں میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ گذشتہ مہینے اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا خفیہ طور پر میزائل اور نیوکلیئر ٹیکنالوجی برما کو بر آمد کرتا رہا ہے ۔

فووِل نے اس مفروضے کو مسترد کر دیا کہ شمالی کوریا، برما کے نیوکلیئر پروگرام میں مدد دے رہا ہے۔ انھوں نے کہا’’ہمارے پاس جو شواہد موجود ہیں ان سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ ہمارے پاس برما کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں جو ثبوت موجود ہیں، ان سے شمالی کوریا کا کوئی براہ راست تعلق ہے ۔‘‘

رابرٹ کیلی نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اس رپورٹ کی روشنی میں، برما کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں مکمل تحقیق کرے۔

XS
SM
MD
LG