رسائی کے لنکس

جنوب مشرقی ایشیا میں حیاتیاتی تنوع میں کمی


اِن علاقوں میں بجلی بنانے والے ڈیموں کی تعمیر اور دوسرے ترقیاتی منصوبوں سےمچھلیاں اور آبی زندگی متاثر ہو رہی ہے

دنیا کے ایک بڑے ماحولیاتی گروپ نے جنوب مشرقی ایشیا میں تازہ پانی میں حیاتیاتی تنوع کے بارے میں ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے۔ ان علاقوں میں بجلی بنانے والے ڈیموں کی تعمیر اور دوسرے ترقیاتی منصوبوں سےمچھلیاں اور آبی زندگی متاثر ہو رہی ہے۔اس تحقیق میں دریائے میکونگ کے کچھ حصوں کا پہلی مرتبہ تفصیلی مطالعہ کیا گیا ہے۔

انٹرنیشنل یونین فار کنزویشن آف نیچر (آئی یو سی این) کی چار سالہ تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انڈوبرما کہلانے والے جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں تازہ پانی کی کئی انواع خطرے کا شکار ہیں۔ یہاں 2,500میں سے 13 فیصد کے قریب انواع کو معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔

انڈوبرما کے خطے میں تھائی لینڈ، برما کا مغربی علاقہ، لاؤس، کمبوڈیا، اور ویتنام شامل ہیں۔ اس خطے کی حدود کا تعین یہاں موجود انواع کی تقسیم اور ماحول بنیاد پر کیا گیا ہے۔
اس خطے کو آئی یو سی این کے سائنسدان ’ہاٹ سپاٹ‘ کہتے ہیں ،کیونکہ یہاں پائی جانے والی زیادہ تر انواع کہیں اور نہیں پائی جاتیں، اور خطرے کا شکار ہیں۔

آئی یو سی این کا کہنا ہے کہ تازہ پانی کی انواع پانی کے بہاؤ میں کمی، آلودگی، مچھلی کے بے انتہا شکار، ڈیموں کی تعمیر، موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی گذرگاہوں میں اجنبی انواع کے داخلے سے خطرے کا شکار ہیں۔

آئی یو سی این کے جنوب مشرقی ایشیا گروپ کے سربراہ رابرٹ ماتھر کا کہنا ہے کہ اس مطالعے کےنتائج تازہ پانی کی مچھلیوں، گھونگوں اور کیکڑوں کے بارے تشویش کا باعث ہیں۔ یہ انواع کروڑوں افراد کی خوراک ہیں۔

رابرٹ ماتھر نے تفصیل بتاتے ہوئے کہا، ’’ہم نے مچھلیوں کی بارہ سو اقسام کا مطالعہ کیا۔ ان میں سے اکیس نہاٍٍیت خطرے میں ہیں، انتالیس خطرے میں ہیں اور باون غیر محفوظ ہیں۔‘‘ تناسب بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’مچھلیوں کی 16.9 فیصد، گھونگوں کی 16.6 فیصد اور کیکڑوں کی تقریباً ایک تہائی یعنی 33.9 فیصداقسام خطرے کا شکار ہیں۔‘‘

تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کمبوڈیا کی ٹن لی سیپ جھیل سے پچھلے پچاس سالوں کے دوران وزن کے لحاظ سے مچھلی اور دوسرے آبی جانوروں کا شکار دگنا ہوا ہے مگر اس علاقے کی انسانی آبادی میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور اب اس علاقے میں مچھلیوں کی تعداد میں کمی کے آثار نظر آ رہے ہیں۔

آئی یو سی این نے لاؤس میں موجود دریائے میکونگ کےچار سو پچاس کلومیٹر طویل حصے کا بھی مطالعہ کیا۔ لاؤس میں آئی یو سی این کے نمائندے رافیل گلیمنٹ کا کہنا ہے کہ بارہ سال پہلے کئے گئے ایک مطالعے کی نسبت آج حیاتیاتی تنوع اور شدید کمی آئی ہے اور جنگلات میں سدا بہار درختوں کے جنگلوں کا بھی کوئی نشان نہیں ملا۔

گلیمنٹ نے کہا، ’’ بارہ سال قبل کی نسبت آج تنوع اور اس کے آثار بہت کم ہیں۔ پرندوں کے بارے میں ہم یہ ابھی سے کہہ سکتے ہیں یہاں اکثر پرندوں کی آبادی کم ہو گئی ہے اور کچھ قسمیں تو دریا کے اس حصے سے بالکل غائب ہو گئی ہیں۔ پرندوں کی موجودگی ماحول کے معیار کو جانچنے کا اچھا پیمانہ ہے۔ پرندے سب سے پہلے متاثر ہوتے ہیں۔ یہ بات یہاں بہت واضح ہے۔‘‘

آئی یو سی این نے کہا کہ دریائے میکونگ کے زیریں حصے پربجلی بنانے والے ڈیموں کی تعمیر کے منصوبے تشویش کا باعث ہیں۔ پچھلے سال دسمبر میں لاؤس کی حکومت نے ماحولیاتی تخمینہ مکمل ہونے تک 3.8 ڈالر لاگت سے تعمیر ہونے والے زیابُوری پن بجلی منصوبے پر کام روک دیا تھا۔ مگر حالیہ خبروں کے مطابق اس کی تعمیر دوبارہ شروع کر دی گئی ہے۔ یہاں پیدا ہونے والی بجلی تھائی لینڈ کو فروخت کی جائے گی۔

رابرٹ ماتھر کا کہنا کہ زیریں میکونگ پر ڈیموں کے زیرِ غور دس منصوبوں پر عمل سے حیاتیاتی تنوع پر اثر پڑے گا۔

’’صرف زیابوری ڈیم کا غذائی تحفظ پر غالباً بہت زیادہ براہِ راست اثر نہیں ہو گا، لیکن اگر زیابُوری ڈیم زیریں میکونگ پر مستقبل میں بنائے جانے والے بہت سے ڈیموں میں سے پہلا ڈیم ہے، تو غذائی تحفظ پر ان تمام ڈیموں کے اجتماعی اثرات بہت زیادہ ہوں گے۔‘‘

آئی یو سی این نے انتباہ کیا ہے کہ اگلی دہائی کے دوران ڈیموں کی وجہ سے خطرے کا شکار مچھلی کی قسموں کا تناسب انیس فیصد سے بڑھ کر ایک تہائی ہو جائے گا۔

ماحولیاتی تنظیموں نے لاؤس سے کہا ہے کہ وہ زیابوری ڈیم کے تعمیر کے دس سالہ التوا کے وعدے پر قائم رہے تاکہ اس سے علاقے کے حیاتیاتی تنوع پر پڑنے والے اثرا کا پوری طرح جائزہ لیا جا سکے۔
XS
SM
MD
LG