رسائی کے لنکس

امریکہ کا چکن ٹیکس


chickens
chickens

اس ٹیکس کا تعلق، مرغیوں کی جنگ' یعنی ' چکن وار' کے دور سے ہےاس لڑائی کا آغاز لگ بھلگ 1961 میں ہوا اور یہ جنگ یورپ اور امریکہ کے درمیان لڑی گئی۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ میں دوسرے بہت سے ٹیکسوں کی طرح ایک چکن ٹیکس بھی ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ٹیکس کا إطلاق پولڑی فارموں پر ہوتا ہے اور نہ ہی چکن فروخت کرنے والوں پر۔ بلکہ اس ٹیکس کا زیادہ تر ہدف غیر ملکی لائٹ ٹرک ہیں۔ ٹیکس کی اونچی شرح کی وجہ سے امریکہ میں غیر ملکی ٹرک خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

ممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ ان ٹرکوں میں مرغیاں ڈھونے کی وجہ سے اس ٹیکس کا نام چکن ٹیکس پڑ گیا ہو۔ جی نہیں، اس ٹیکس کا نام ہی چکن ٹیکس ہے، لیکن اس کا امریکی مرغیوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، ہاں البتہ ایک تعلق ضرور ہے۔

اس ٹیکس کا تعلق، مرغیوں کی جنگ' یعنی ' چکن وار' کے دور سے ہے۔اس لڑائی کا آغاز لگ بھلگ 1961 میں ہوا اور یہ جنگ یورپ اور امریکہ کے درمیان لڑی گئی۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں یورپ کی معیشت کو شديد نقصان پہنچا اور وہاں دوسرے اقتصادی مسائل کے ساتھ ساتھ کھانے پینے کی چیزوں کی قلت پیدا ہوگئی۔ خاص طور پر چکن تو عنقا ہی ہوگیا۔ اور چکن کھانے کو امرا بھی عیاشی سمجھنے لگے۔ امریکی معیشت دوسری عالمی جنگ کے مضر اثرات سے نسبتاً محفوظ رہی۔ اور یہاں دیگر شعبوں کے ساتھ پولٹری فارمنگ کی صنعت بھی خاص طور پر پھل پھول رہی تھی اور مرغی امریکیوں کی خوراک کا ایک بنیادی جزو بن چکی تھی۔

موقع سے فائدہ اٹھاکر امریکی تاجروں نے مرغیاں جہازوں میں بھر کر یورپ بھیجنی شروع کر دیں۔ جس سے یورپی منڈیوں میں مرغیوں کا سیلاب آگیا۔ امریکی چکن ، یورپی چکن کے مقابلے میں بہت سستا تھا۔ جس سے عام لوگوں کا بھلا ہوا اوریورپ میں چکن کا استعمال نمایاں طور پر بڑھ گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں تقریباً نصف یورپی مارکیٹ پر امریکی چکن قابض ہوگیا جس سے یورپی پولٹری فارم بند ہونا شروع ہو گئے۔ جس نے چکن وار کو جنم دیا۔

امریکی چکن کے خلاف یورپ میں پہلی آواز ڈنمارک نے اٹھائی اور کہا کہ امریکہ ہماری مارکیٹ پر قبضے کے لیے اپنا چکن امدادی قیمت پر بھیج رہا ہے۔ فرانس نے یہ دلچسپ إلزام لگایا کہ امریکی چکن میں ایک خاص قسم کا ہارمون موجود ہے جو مردوں کو نامرد بنا سکتا ہے۔ جرمنی نے یہ انکشاف کیا کہ امریکی پولٹری فارموں میں مرغیوں کو موٹا کرنے کے لیے ایک زہریلی دوا سنکھیا کھلائی جاتی ہے اوراس کے گوشت میں موجود زہریلے اجزا صحت کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

لیکن جب اس شور شرابے کے باوجود امریکی چکن کی فروخت کم نہ ہوئی تو یورپی پولڑی کی صنعت نے اپنی اپنی حکومتوں پر امریکی چکن پر پابندی کے لیے دباؤ ڈالا۔ جس کے بعد یورپی ملکوں نے امریکی چکن پر درآمدی ٹیکس ناٖفذ کر دیا۔ 25 فی صد کی شرح سے لگائے جانے والے اس ٹیکس کا نام چکن ٹیکس تھا۔

یورپی چکن ٹیکس سے امریکہ کی مرغ بانی کی صنعت کو بھاری نقصان پہنچا اور یورپی منڈی کا ایک بڑا حصہ اس کے ہاتھ سے نکل گیا۔ کروڑوں ڈالر کے سالانہ نقصان پر امریکی تاجر بلبلا اٹھے اور انہوں سے حکومت پر زور دیا کہ وہ یورپی حکام سے بات کرے۔

مرغیوں کے تنازع پر امریکہ اور یورپی حکومتوں کے درمیان لگ بھگ تین سال تک سفارت کاری اور بات چیت چلتی رہی۔ ایک موقع پر امریکی حکام نے یہ دھمکی تک دی کہ اگر چکن ٹیکس واپس نہ لیا گیا تو وہ نیٹو میں اپنا کردار گھٹا دیں گے ۔لیکن چکن کی جنگ اتنی اہمیت حاصل کر چکی تھی کہ یہ دھمکی بھی کارگر نہ ہوئی اور یورپ چکن ٹیکس پر ڈٹ گیا۔

سفارت کاری میں ناکامی کے بعد امریکہ نے جوابی وار کرتے ہوئے سن 1963 میں نشاستے کی مختلف اقسام اور لائٹ ٹرکوں پر یورپی ٹیکس کے مساوی 25 فی صد درآمدی ٹیکس نافذ کر دیا اور اس کا نام بھی وہی رکھا یعنی چکن ٹیکس۔

اب آپ کے ذہن میں یہ سوال ابھرے گا کہ ٹیکس صرف لائٹ ٹرکوں پر ہی کیوں لگایا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں سب سے مقبول گاڑی لائٹ ٹرک ہے۔ امریکہ کے دیہی علاقوں میں شاہد ہی کوئی گھر ایسا ہو، جہاں آپ کو کئی کئی ٹرک نظر نہ آئیں۔ شہروں میں بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ۔ لائٹ ٹرک امریکیوں کی روزمرہ زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں اورہر وقت متحرک رہنے والے امریکیوں کو ان ٹرکوں کی اشد ضرورت رہتی ہے۔

اگرچہ امریکہ کی آٹو انڈسڑی کافی جدید اور ترقی یافتہ ہے لیکن یورپی گاڑیاں زیادہ پائیدار اور کم خرچ ہوتی ہیں اور خاص طور پر یورپی ٹرکوں کو امریکی ٹرکوں پر ترجیج دی جاتی ہے۔ یورپی ٹیکس کے جواب میں غیر ملکی ٹرکوں پر چکن ٹیکس نافذ کرنے کا ایک مقصد ٹرک سازی کی مقامی صنعت کی بے چینی اور مشکلات دور کرنا اور سیاسی فائدے اٹھانا بھی تھا ۔

آج امریکی سڑکوں پر غیرملکی کاریں تو نظر آ جاتی ہیں، لیکن غیر ملکی لائٹ ٹرک ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ یہاں لگ بھگ 87 فی صد لائٹ ٹرک امریکی ساختہ ہیں ۔ مقابلے کی فضا نہ ہونے کی وجہ سے ٹرک ساز ان کے ڈیزائن، سہولتوں اورنئی اختراعات پر توجہ نہیں دیتے۔ آپ آج کا ماڈل لیں یا دس بیس برس پہلے کا، آپ کو کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آئے گا۔ جب کہ امریکہ سے باہر ٹرکوں کے دلکش اور دیدہ زیب ڈیزائن اور ان میں جدت دکھائی دیتی ہے۔
چکن ٹیکس کے نفاذ کے بعد سے امریکی ٹرکوں کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جسے انہیں چکن کے پنجرے اور کریٹس ڈھونے کے لیے ہی بنایا گیا ہے۔

  • 16x9 Image

    جمیل اختر

    جمیل اختر وائس آف امریکہ سے گزشتہ دو دہائیوں سے وابستہ ہیں۔ وہ وی او اے اردو ویب پر شائع ہونے والی تحریروں کے مدیر بھی ہیں۔ وہ سائینس، طب، امریکہ میں زندگی کے سماجی اور معاشرتی پہلووں اور عمومی دلچسپی کے موضوعات پر دلچسپ اور عام فہم مضامین تحریر کرتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG