رسائی کے لنکس

سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے بچوں میں مشقت کا رجحان


بچوں سے مشقت کے خلاف عالمی دن کے موقع پر اقوام متحدہ اور غیر سرکاری تنظمیوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ پاکستان میں گزشتہ دو سالوں کے دوران آنے والے بد ترین سیلاب ملک میں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافے کا سبب بنے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے محنت ’آئی ایل او‘ کے ترجمان ڈاکٹر سیف اللہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ بچوں کی مشقت کا ایک تعلق غربت و خراب معاشی حالات سے ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ عام تاثر یہ ہی کہ سیلابوں کے باعث بے گھر ہونے والے خاندانوں کے بچوں کو ضروریات زندگی کے حصول کے لیے مجبوراً کام کرنا پڑ رہا ہے۔

’’دو سیلاب آئے وہ بہت بڑے سیلاب تھے، پاکستان کا بہت بڑا رقبہ زیر آب آ گیا تھا۔ اس کی وجہ سے دیہات اور قصبوں میں روزگار کے جو مواقع تھے وہ بہت متاثر ہوئے۔ لوگوں کے بہت سے روزگار (کے ذریعے) کھیتی باڑی بھی اس سے خراب ہوئی۔ کافی ایسی غیر سرکاری تنظیموں نے اپنی رپورٹس میں اس بات کا ذکر کیا کہ زیادہ بچے نظر آتے ہیں کام کرتے ہوئے۔‘‘

عالمی ادارہ محنت کے ترجمان نے بتایا کہ پاکستان میں بچوں کی مشقت سے متعلق تازہ اور مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں اور 1996ء کی مرتب کردہ سرکاری رپورٹ کے مطابق ملک میں 33 لاکھ بچے مشقت یا مزدوری کر رہے تھے۔

حکمران پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی اور بچوں کے تحفظ کے لیے سرگرم عمل روبینہ قائم خانی کا کہنا ہے کہ بچوں سے مشقت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے حکومت نے متعدد اقدامات کیے جن کے تحت بیت المال کے زیرانتظام 151 خصوصی مراکز کا قیام بھی شامل ہیں۔

سیلاب کی تباہ کاریوں کا منظر (فائل فوٹو)
سیلاب کی تباہ کاریوں کا منظر (فائل فوٹو)


روبینہ قائم خانی بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ سیلاب زدہ علاقوں میں مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

’’بچوں پر بھی بلاشبہ اس کے اثرات دیکھے گئے ہیں، کیوں کہ خط غربت کی حد (جو سیلاب) سے پہلے تھی، اس میں اضافہ ہوا ہے اور یہ بالکل بجا ہے کہ ہمیں اس چیز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘‘

روبینہ قائم خانی نے کہا کہ وہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک پارلیمانی گروپ کی تشکیل کے لیے کوشاں ہیں جو جبری مشقت سمیت دیگر اُمور پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ وفاقی و صوبائی حکومت سے مل کر ان مسائل کے حل کی راہ تلاش کرے گا۔

عالمی قوانین کے تحت 14 سال سے کم عمر بچوں سے مزدوری نہیں کرائی جا سکتی اور ایسا کرنا جبری مشقت کے زمرے میں آتا ہے۔ پاکستان میں 14 سال سے کمر عمر بچے زیادہ تر گھریلو ملازمتوں، کباڑ اکٹھا کرنے، اینٹوں کے بھٹوں یا پھر موٹر ورکشاپوں پر کام کرتے نظر آتے ہیں۔

حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کا کہنا ہے کہ بچوں سے مشقت کی حوصلہ شکنی کے لیے انھیں تعلیم کی فراہمی انتہائی ضروری ہیں۔ حکمران پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ غریب والدین کی کفالت اور ان کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سمیت ایسے فلاحی منصوبوں پر بھی کام کیا جا رہا ہے تاکہ والدین مجبور ہو کر اپنے بچوں سے مشقت نا کروائیں۔

XS
SM
MD
LG