رسائی کے لنکس

سرتا پا امن : بچوں کے لیے ملیحہ شاہ کی کتاب


ملیحہ شاہ
ملیحہ شاہ

دنیا میں امن لڑنے سے نہیں، تگ و دو کرنے سے آئے گا۔’ وہ کہتی ہیں کہ اگر امن ہو، تو غذا اور گھر کے بغیر بھی انسان پُرسکون دکھائی دیتا ہے

ملیحہ شاہ ایک نوجوان پاکستانی نژاد امریکی ہیں۔ امن کے پیغام پر بچوں کے لیے انگریزی نظم میں لکھی گئی اُن کی تازہ کتاب ’پیس اِن مائی ورلڈ’ کی ایک ماہ قبل امریکہ میں رونمائی ہوئی۔

اُن کی نظم کے کچھ اشعار ہیں:

Let’s take a journey to the beautiful world of peace!

Let’s all stand beneath the big blue sky.

Let’s all share the land so green.

Let’s all join hands together.

Let’s reach out to those in need.

ملیحہ شاہ ، ورجینا میں نرسری سطح کے بچوں کی تعلیم کے ایک ادارے سے منسلک ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ چار سے آٹھ سال کی عمر ہی ہے جس میں ذہنی پرورش کا کام کیا جانا چاہیے۔ بچے حقیقی طور پر من کے سچے ہوتے ہیں، اور اِس عمر کےمعصوم ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں کہ کوئی آئے اور ہمیں باقی زندگی کے اقدار کی پھلواری سے روشناس کرائے، کیونکہ بنیادی اقدار کی داغ بیل ڈالنےکی دراصل یہی عمر ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ امن آفاقی موضوع ہے جو کسی خاص ملک و قوم کی میراث نہیں، سب کے لیے لازم ہے کہ اِس کو پروان چڑھانے میں اپنا حصہ ڈالیں۔ وہ بچوں کے لیے نظم، نثر کے علاوہ تصاویر تخلیق کرتی ہیں، اور رچمنڈ شہرمیں فنونِ لطیفہ کا ادارہ اُن کا مداح و پرستار ہے۔

وائس آف امریکہ کو انٹرویو میں ملیحہ نے کہا: ‘دنیا میں امن لڑنے سے نہیں، تگ و دو کرنے سے آئے گا۔’ وہ کہتی ہیں کہ اگر امن ہو، تو غذا اور گھر کے بغیر بھی انسان پُرسکون دکھائی دیتا ہے۔

ملیحہ نےسوشل ورک میں ماسٹرز کی تعلیم حاصل کی ہے، اور دس برس قبل پاکستان سے امریکہ آئیں ۔ لاہور اور سرگودھا میں دو سال تک یونیسف کی طرف سے سماجی کام سرانجام دیا، جِس کے دوران اُنھیں بچوں کے لیے زندگی وقف کرنے کا شوق پیدا ہوا، جس کی تکمیل اُنھیں امریکہ لے آئی۔

ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنی کتاب کا ترجمہ اردو، ہندی اور عربی کے علاوہ ہسپانوی زبان میں بھی شائع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

ملیحہ نے بتایا کہ فکشن اور شاعری اُن کی پسند کی اصناف ہیں، اِسی لیے اُنھوں نے تصاویر کی مدد سے آسان زبان میں بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا ہے، جس کی پذیرائی پر وہ بہت خوش ہیں۔

کرداروں کے بارےمیں، اُن کا کہنا تھا کہ اُن کے لکھنے میں پانچ ممالک یعنی پاکستان، مصر، ایتھوپیا، امریکہ، اور چین کے رہن سہن کا خاکہ نظر آتا ہے، جب کہ اِن ممالک کے نقشے بھی دیے گئے ہیں۔

وہ خاتونِ خانہ اور ایک پانچ برس کی بچی کی والدہ ہیں، اور 2003ء سے ورجینا میں بچوں کی تعلیم اور نشو نما کے ادارے سے وابستہ ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ وہ ایک مصورہ ہیں جنھیں بچوں کے جھرمٹ میں عافیت کا احساس ہوتا ہے، اور بچوں کےدرمیان رہتے ہوئے اُن کی ننھی منی خواہشات کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ مذہب میں وسعتِ قلبی ہونی چاہیئے، اور جب تک ہم ایک دوسرے کا درد دل میں نہ رکھیں گے، ہم مذہبی ہو ہی نہیں سکتے۔ ثقافتی تفریق کا مطلب ذہنی تفریق نہیں، بلکہ ہم آہنگی ہونا چاہیئے اور اسی کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ بین المذاہب رابطوں کو بڑھانا ہوگا اور محبت کا درس بچوں کے دل میں ڈالنا ہوگا۔ اور یہی کام کرنے کا ہے اور کیا جانا چاہیئے۔

‘پیس اِن مائی ورلڈ’ میں ملیحہ بار بار لکھتی ہیں: ‘میں سر تاپا امن ہوں’ جو کتاب کا نچوڑ اورمطمعِ نظر ہے۔

اُن کی ویب سائیٹ ہے: [www.syedamleehashah.com]

XS
SM
MD
LG